جس شہر میں بھی رہنا ‘اکتائے ہوئے رہنا!

Jiss Sheher Mein Bhi Rehna Uktaye Hue Rehna

Mian Muhammad Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 2 فروری 2023

Jiss Sheher Mein Bhi Rehna Uktaye Hue Rehna
منیرنیازی صاحب کہا کرتے تھے ”جو نقاد کے زیراثرلکھتا ہے وہ تخلیق کار نہیں‘کہ نقاد کا کردار تخلیق کے بعد آتا ہے ‘اپنی ذات میں مگن رہو ‘نقادوں کو اپنا کام کرنے دو یہ اس سطح پر پہنچ ہی نہیں سکتے جہاں پر تخلیق کار اپنی راتوں کے جگراتے دے کر کوئی مصرعہ تخلیق کرکے لاتا ہے“ جن دوشخصیات سے زمانہ طالب علمی میں متاثرہوا اور میری چوبیس سالہ ادبی وصحافتی زندگی پر ان کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں وہ منیرنیازی اور جواد نظیرتھے حق مغفرت کرئے دونوں عجب درویش تھے- اپنی ذات میں مگن ‘نئے فلسفوں کی کھوج میں رہنے والے ‘شرمندہ ہوں دونوں کی برسی پر لکھنے میں تاخیر ہوئی مگر یہ تاخیرشعوری نہیں تھی‘جیسا کہ منیر نیازی فرمایا کرتے تھے”واردات اپنی وقت مقررپر ہی وارد ہوتی ہے“ ادب کے لوگ یہاں واردات کے مفہوم سے آشنا ہونگے عام پڑھنے والوں کے لیے ادبی زبان میں ”واردات“کا مفہوم نزول یا اترنا ہے وہ شاعری ہو ‘نثر یا کسی مصور کا خیال-شاعری میں منیرنیازی کی انفرادیت تھی تو مضمون نگاری میں جواد نظیر منفرد‘دونوں میں کافی چیزیں مشترک تھیں حس ظرافت ‘حساسیت اور بے پروائی کچھ لوگ اکھڑبھی کہتے ہیں مگر میں ان سے اتفاق نہیں کرتا‘جواد صاحب کی سادگی ‘عجزوانکسار ی نیازی صاحب کی آخری عمرمیں زیادہ نمایاں ہوکر ابھرتی ہے حافظ شیرازی نے کہا تھا!
 اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
(اگر وہ شیرازی ترک میرے دل کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے یعنی میری محبت کو قبول کرتی ہے تو اس کے گال کے کالے تل پر میں سمرقند اور بخارا کو نچھاور کر دوں)
تیمور نے حافظ کو بلا کر پوچھا کہ میں نے ہزاروں شہروں کو ویران کیا تاکہ اپنی زادگاہ اور اپنے وطن سمرقند و بخارا کو آباد کروں اور تم ایک خال سیاہ کے عوض انھیں بخش دو گے؟جواب میں حافظ نے کورنش بجا لا کر کہا”بادشاہ سلامت انہی بخششوں کا نتیجہ ہے کہ اس حال میں پڑا ہوں“ -ان دونوں صاحبان کا حال بھی حافظ جیسا ہی تھا کہ وہ اپنی” بخششوں “سے ہی تنگ دامنی میں زندگی گزار گئے ‘نیازی صاحب خوش لباس تھے اللہ نے جو قدکاٹھ ‘حسن ‘مردانہ وجاہت نیازی قبیلے کے اس خانزادے کو بخشا تھا وہ عمر کے آخری حصے میں اور کھلا ‘نیازی صاحب کے ہم عصروں کا کہنا تھا کہ ”منیر جب بوسکی پہن کرمال روڈپر چلتا تو راہ گیر رک کر ایک نظرضرور دیکھتے“ تاہم نیازی صاحب نے ہمیشہ بے نیازی ہی دکھائی ”اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو“شاید اسی ہجوم میں ”تنہائی“کے ان لمحات کا ثمر ہے -نرگسیت کا الزام آیا مگر انہوں نے کبھی جواب نہیں دیا ماسوائے مجلس خواص میں وہ اسے اپنے دفاعی حصار قراردیتے قطع نظراس کے کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں-شاعری میں منیرنیازی کو کلاسیک نے متاثرنہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنا منفرد”آڈیکشن“دیا جو ان کے ساتھ ہی چلا گیا کیونکہ منیر نیازی کے بعدکسی کو جرات نہیں ہوئی کلاسیک سے بغاوت کی‘اسی طرح مضمون نگاری ہو یا خبرکی سرخی جواد نظیرکاثانی نہیں ملتا ممتاز انگریزی جریدے نے جواد صاحب کی رحلت پر ان الفاظ میں انہیں خراج عقیدت پیش کیا
Jawad Nazeer, master headline writer, is no more
مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ صرف ہیڈلائن کے ہی ماسٹرنہیں تھے نثرنگاری میں بھی وہ بے مثال تھے ان کی موت پر ناچیزنے ادنی سی کوشش کی تھی”پانچواں درویش چلاگیا“ ہاں جی یہ ان کی مضمون کا مستقل عنوان تھا ان کا ٹریڈ مارک ‘ ان کے قریبی دوستوں میں خاورنعیم ہاشمی صاحب سے ان کی زندگی کے ایسے پہلوؤں کے بارے میں علم ہوتا ہے جو ہم جسے عاموں سے چھپے ہوئے تھے سو جب دل جوادنظیر کو یاد یں تازہ کرنے چاہے تو خاورصاحب کے زبردستی کے مہمان بن جائیے جسے وہ کبھی برانہیں مانتے -جب بھی کبھی حاضری کا شرف حاصل ہوا اپنے جیسے زبردستی کے کئی مہمانوں کو خاور صاحب کے دولت کدے پر پایا‘جواد صاحب کے مضمون کے اجزائے ترکیبی جتنے سادہ تھے اتنے ہی کاٹ دار بھی وہ سخت سے سخت بات ایسے لطیف پیرائے میں کرجاتے کہ سول ڈکٹیٹرہوں یا فوجی وہ تلملا کررہ جاتے ‘جیلیں بھی کاٹیں مگر اپنی ڈگر سے نہیں ہٹے -ان کی چند دستیاب تصاویر میں مجھے ان کی ”وردی“والی تصویر سب سے زیادہ پسند ہے جینزکی پینٹ پر ٹی شرٹ ‘ان کے انتقال پر اخبارات وجرائد کو ان کی تصاویر ڈھونڈنے میں بڑی مشکل پیش آئی سو ان کی ”وردی“والی تصویر سے ہی کام چلایا گیامیں اسے وردی اس لیے کہا کرتا کہ جواد صاحب اکثروبیشریہی لباس زیرتن رکھتے‘لباس کے معاملے میں انہی سے ”کنفرٹیبل“رہنا ہم نے سیکھا‘دوست توآپ کے اندرکے انسان کو پرکھتا اور دیکھتا ہے ظاہرسے شخصیت کا تعین عامیانہ ذہنیت کے لوگ کرتے ہیں- حتی کہ جن اداروں کی انہوں نے ادارت کی ان کے پاس بھی جواد صاحب کی کوئی ”ہائی ریزولیشن “تصویر نہیں تھی جو چند تھیں وہ سگریٹ کی وجہ سے ناقابل اشاعت پائیں -سگریٹ کے بغیر جواد صاحب کی تصویرڈھونڈنا یقینا ایک مشکل کام تھا کیونکہ انہوں نے سگریٹ کو کبھی بجھنے نہیں دیا‘ڈیوس روڈ پر اپنے دفتر سے پیدل پریس کلب آتے وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے کئی لوگ خیال کرتے کہ شاید جواد صاحب جان بوجھ کر نظراندازکرتے ہیں مگر حقیقت میں انہیں آس پاس کیا چل رہا ہے اس کا علم نہیں ہوتا تھا‘وہ کم گو انسان تھے ‘لان کے کسی گوشے میں سگریٹ سلگائے نامعلوم فلسفوں کی کھوج میں رہتے تھے منیرنیازی کی طرح یہی وجہ ہے کہ جس طرح منیرنیازی کی ہرنظم‘غزل‘خیال یا شعرہمیں نئے فلسفوں سے آشنا کرواتے ہیں اسی طرح جواد نظرکا ہر لفظ نئے فلسفوں کی تہیں کھولتا آج بھی ”پانچواں درویش“پڑھیں تو کئی بار پڑھے مضامین میں نئی جہتیں ملتی ہیں -جب کھلتے تو علم ودانش کے وہ موتی بکھرتے کہ کمال کردیتے‘بیچ میں ایک آدھ پھلجھڑی ایسے چھوڑتے کہ روتوں کو ہسنا دیتے جواد صاحب بہت حساس تھے ”سیٹھ “کی فرعونیت کی تاب نہ لاسکے مگر ان کے جانے کا اندازبھی ”باغیانہ“تھا غلام معاشرے کے آزاد دانشور ‘فلاسفر نے زندگی غلاموں کو جگانے میں صرف کردی‘اس کی قیمت بھی اداکی مگر آخری قیمت بڑی بھاری تھی وہ تھی زندگی ‘منیرنیازی کی طرح اس نے بھی جلاوطنی قبول نہیں کی اور گھٹن زدہ اس معاشرے میں سوئے غلام ذہنوں کو جگانے میں لگے رہے-منیر نیازی صاحب کہا کرتے تھے کہ ”جب گھٹن بڑھنے لگتی ہے تو میں خود کو ایک ایسے خول میں بند کرلیتا ہوں جہاں زمان ومکاں کی قید رہتی ہے نہ قاعدے قوانین کی“شاید گھٹن زیادہ ہی بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے اپنے اپنے شعبوں کے دونوں آزادمنش استادوں نے خود کو ایک ایسے خول میں بند کرلیا جواب کبھی نہیں کھلے گا ہم کہاں ‘ہماری مجال کیا ‘ہمارا قلم تاب نہیں لاسکتا ایسی ہستیوں پربات کریں ایک ادنی سی کاوش ہے‘ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں عقیدت کا اظہار-چلتے چلتے منیرنیازی کی ایک غزل یاد آرہی ہے---
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیراپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :