صحافت بمقابلہ یوٹیوبرز

Journalism VS YouTubers

Mian Muhammad Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 15 دسمبر 2022

Journalism VS YouTubers
میڈیا انڈسٹری بھی دیگر صنعتوں کی طرح تغیروتبدل کا شکار رہی ہے ہم نے کئی میڈیم کے ادوار دیکھے ابلاغیات میں ہمارا پہلا تعلق ریڈیو سے بنا کہ اس زمانے میں ٹیلی ویژن گھرمیں تو کیا ہمارے پورے محلے میں نہیں تھا. پھر ٹیلی ویژن کا دور آیا غالبا چار گھنٹے صبح اور چار سے پانچ گھنٹے شام کو نشریات ‘خبرنامہ ‘فرمان الہی کے ساتھ ہی ساڑھے نو بجے کے قریب ٹیلی ویژن بند ہوجاتا.

اس زمانے کے دیگر ذرائع ابلاغ میں اخبار‘رسالے‘ڈائجسٹ اور کتابیں ہوا کرتی تھیں .

(جاری ہے)

کتابوں کو میں نے شعوری طور پر ابلاغیات میں شامل کیا ہے کیونکہ مشرق سے لے کر مغرب تک ابلاغیات کے استاتذہ کی اکثریت نے ذرائع ابلاغ کی جو تعریف کی اس میں کتاب کو اس کا حصہ قرار دیا چونکہ معاملہ جید اساتذہ کا ہے تو ہم بھی اسی تعریف کے قائل ہیں. میری تیئس ‘چوبیس سالہ صحافتی زندگی کا بڑا حصہ خبررساں اداروں میں گزرا ہے تو ہمیں وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا پڑتا تھا ہر خبررساں ادارے کی کوشش ہوتی کہ اس کی خبرسب سے پہلے ”لینڈ“کرئے رفتار کے اعتبار سے خبررساں اداروں کا کام آج کے الیکٹرانک یا ڈیجیٹل میڈیا کے ہم پلہ تھا مگر ذمہ داری ‘خبرکی سند‘املا‘گرائمراور زبان کا خیال یہ ساری ذمہ داریاں رپورٹر کے کندھوں پر ہوتی تھیں اور وہ ان کے لیے جواب دہ ہوتا.

الیکٹرانک میڈیا نے تو کام آسان کردیا کہ مائیک سامنے کھڑے بندے کے منہ کے میں گھسیڑدو پرنٹ میڈیا نے ہمیں بنیادی اخلاقیات سکھائیں جنہیں آج تک سینے سے لگائے پھرتے ہیں کہ اساتذہ کہا کرتے تھے کہ ”سرخی میں کوئی ایسا لفظ ڈالنا بدترین صحافتی بددیانتی ہے جو متن میں شامل نہ ہو“آج یوٹیوب پر دیکھیں نوے فیصد سے زیادہ ویڈیوز کے "Thumbnail" ایسے ہوتے ہیں جن کا ویڈیو کے اندر تزکرہ تک نہیں ملتا.

مشرف دور میں الیکٹرانک میڈیا عام ہوا تو یار لوگوں کی اکثریت ادھر چلی گئی اعظم چوہدری‘سلیم بخاری صاحب‘شجاع الدین صاحب‘نوید چوہدری‘ شہبازمیاں ‘ رانا عظیم ‘عارف حمید بھٹی‘نصراللہ ملک“پا عثمان‘قذافی بٹ‘احمد ولید‘میاں عابد‘بابرڈوگر‘شہزادحسین بٹ ‘اخترحیات مرحوم کتنے نام گنواﺅ سب نے ہمیں الیکٹرانک میڈیا میں ”دھکا“دینے کے لیے پورا زرو لگایا مگر جسے اللہ رکھے‘سو ہم یار لوگوں کی باتوں میں نہ آئے اور بچ گئے.

آج مطمئن ہیں کہ ہمارا فیصلہ درست تھا پرنٹ میڈیا کی اہمیت ختم نہیں ہوسکتی ‘ٹی وی چینل کی خبرکوئی دوسری بڑی خبرآنے کے بعد دم توڑدیتی ہے مگر اخبارات کی خبر نہ صرف چوبیس گھنٹے زندہ رہتی ہے بلکہ خاموشی سے تاریخ سازی کا م کرتے ہیں‘سول اینڈ ملٹری گزٹ‘زمیندار‘قندیل‘مشرق‘آزاد‘دی سن‘پاکستان ٹائمز‘فرنٹیئرپوسٹ‘دی مسلم ‘سیاست اور ڈان سمیت 1930سے آج تک تمام اخبارات کا ریکارڈ لاہور کی پنجاب پبلک ‘دیال سنگھ اور جناح لائبریری سے مل جائے گا.

ریسرچرآج بھی تاریخ کو گہنگالنے اور مستند مواد کی تلاش میں انہی لائبریریوں کا رخ کرتے ہیں کہ آج بھی حوالہ دینے کے لیے اخبارات کے مواد کو سند کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ پرنٹ میڈیا کا عہد ختم ہوا غلط ہوگا دنیا میں اخبار کی اہمیت آج بھی ہے‘یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ”اسٹارز“پرنٹ میڈیا نے ہی دیئے ہیں پاکستان کے اسی فیصد سے زیادہ ”اسٹار“اینکرزاور رپورٹرزپرنٹ میڈیا سے ہی الیکٹرانک میڈیا میں گئے.

سوشل میڈیا کو دنیا بھر کی اخباری صنعت میں خبرکے حوالے سے قبولیت نہیں ملی‘ہاں پراپوگینڈا ٹول کی حیثیت سے یہ موثر ثابت ہوا ‘کیونکہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ذہنی امراض کے ماہرین آج لوگوں کو ”سکرین ٹائم“کم کرنے کے مشورے دے رہے ہیں سوشل میڈیا کس طرح سے مختلف ذہنی امراض پھیلانے کا سبب بن رہا ہے اس کی تفصیل پھر کبھی سہی.

اخباری صنعت میں پیسے لے کر خبر لگانے والے سب ایڈیٹر یا رپورٹر کو اچھوت سمجھا جاتا تھا مگر آج ”پیڈ ویڈیوز“چلانے والے ”سمارٹ لوگ“کہلاتے ہیں حالانکہ وہ بھی اسی گالی کے مستحق ہیں جو اس سب ایڈیٹریا رپورٹرکو پڑتی تھی . صحافتی یا معاشرتی اخلاقیات ان کا جنازہ دیکھنا ہو تو یوٹیوب اور دیگرسوشل میڈیا پر جاکر دیکھ لیں ‘اخباری صنعت میں ”اے بی سی “سرٹیفکیٹ میں اشہاروں کا ریٹ بڑھانے کے لیے رشوت دے کر ہیر ‘پھیر کروایا جاتا تھا ‘الیکٹرانک میڈیا میں کراچی کی کچھ پارٹیوں نے ”ٹی آرپی“کی ٹھیکے داری شروع کردی.

اب یہی کام یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا میں ہورہا ہے پیسے دے کر ویوز‘لائیکس‘واچنگ آرز سمیت جو مرضی خرید لیں منڈی لگی ہوئی ہے جس میں سب کچھ بکتا ہے‘ نیوزاور حالات حاضرہ سے متعلق اربوں ٹیرابائٹ کے اس ڈیٹا کا پوسٹ مارٹم صحافتی اقداراور معیارکو سامنے رکھ کر کیا جائے تو شاید ننانوے فیصد ڈیٹا اس معیار پر پورا نہ اتر سکے ایک لائیک‘کلک یا ویو کے لیے بدقسمتی سے ہمارے نوجوان ساتھی ہر حد پار کرجاتے ہیں .

ہمارے شیر جوان کیمرا مائیک اٹھاکر نکل کھڑے ہوتے ہیں تربیت تو سرے سے ہی نہیں ‘کاپی رائیٹنگ‘بورڈ‘کیو ‘ان سب کے معنی پوچھ کے دیکھ لیں یہ کس چڑیا کا نام ہیں کوئی پتہ نہیں‘چند ویوزاور کے بدلے میں ملنے والے گنتی کے دوچار ”سینٹس“کے لیے جس طرح معاشرے کی اخلاقیات کو تباہ کیا جارہا ہے اس کی کس کو پرواہ ہے‘باقی رہی تحقیقاتی صحافت وہ آج بھی تھوڑی بہت پرنٹ میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا میں نظرآجاتی ہے ‘’ ’یوٹیوبی “ تحقیقاتی چنیل کون چلاتا ہے‘سرپرستی کون کرتا ہے‘مواد کہاں سے فیڈ ہوتا ہے اب یہ کوئی رازنہیں رہا اس کے باوجود سوشل میڈیا کے” شیرجوان “شرح نکال کر دیکھیں آج بھی تحقیقاتی رپورٹس پرنٹ میڈیا اور ویب سائٹس پر ہی نظرآئیں گی.

آپ مارکیٹ سے اچھے سے اچھا کیمرہ ‘مائیک اور دیگر سازوسامان تو خرید سکتے ہیں مگر خدادصلاحتیں نہیں ‘پہلے زبان اور گرائمر کا بیڑا غرق ہوا اب ہجوں اور املا کو دیکھ کر بندہ سرپیٹ کررہ جاتا ہے کہ آج اساتذہ زندہ ہوتے تو اردو کی اس طرح درگت بنتے دیکھ کر وہ جیتے جی مرجاتے ‘جاتے جاتے ایک دوست کا قول کہ ”اردو انہیں آتی نہیں اور انگریزی ان کی ”ویک“ ہے“.

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :