اورنگزیب حبس بے جا کیس،کمشنر ایف سی آر کو 10روز میں اپیل کی سماعت کر کے رپورٹ عدالت کو پیش کرنیکی ہدایت،بغیر وجہ کے کسی بھی شخص کوتاحیات جیل میں نہیں رکھاجا سکتا،ڈپٹی کمشنر کا فیصلہ اس کے منافی ہے ،چیف جسٹس کے ریمارکس

منگل 19 دسمبر 2006 18:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19دسمبر۔2006ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور میں پولیس کی طرف سے ایک شخص اورنگزیب کو حبس بے جا میں رکھنے اور غلط مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث کرنے کے خلاف دائر کردہ خاتون کی درخواست پر کمشنر ایف سی آر کو ہدایت کی ہے کہ مذکورہ شخص کی اپیل کی سماعت 10 روز میں مکمل کر کے اس فیصلے کی رپورٹ عدالت کو ارسال کرے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمازرکس دیتے ہوئے کہا کہ بغیر کسی وجہ سے کسی بھی شخص کو تازندگی جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ عدالتیں کام کر رہی ہیں ورنہ غریب لوگوں کی داد رسی کون کرتا اب بھی قبائلی علاقوں میں کئی لوگ غیر قانونی طور پر قید میں موجود ہیں ۔ ڈپٹی کمشنر کا فیصلہ آئین کے منافی ہے اور اسے اس طرح کے فیصلے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز ادا کئے اورنگزیب کے حوالے سے سٹیٹ کونسل نے بتایا کہ مذکورہ شخص فراڈ او ر کئی دوسرے مقدمات میں ملوث ہے جن میں 410،422 اور دوسرے مقدمات شامل ہیں مذکورہ شخص پر خمیثننامی شخص کے 15 لاکھ روپے نہ دینے کا الزام ہے۔ علاوہ ازیں چرس کا الزام اس لئے ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ اس کی کچھ مقدار کیمیکل ایگزامنر کے پاس نہیں بھجوائی گئی تھی۔

ڈپٹی کمشنر نے مذکورہ شخص کو ڈیڑھ سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی یہ سزا کاٹ چک اہے تاہم اسے ابھیتک اس لئے رہا نہیں کیا گیا کہ اس نے خمیثن نامی شخص کے 15لاکھ روپے واپس نہیں کئے ہیں ۔ مذکورہ شخص کی بیوہ ثمینہ اورنگزیب نے عدالت کوبتایا کہ اس کے خاوند پر لگائے جانے والے تمام الزامات جھوٹے ہیں اور کوئی بھی سچا ثابت نہیں ہوا ہے۔

یہ لوگ جرگہ بھی خود بناتے ہیں اور خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں اس نے مزید عدالت کو بتایا کہ اس کے خاوند سے پولیس ملاقات بھی نہیں کرنے دیتی اس کا پیدا ہونے والا بچہ دو سال کا ہو گیا ہے آج اس نے عدالت میں دیکھا ہے کہ پولیس نے ان کے ساتھ ظلم کیا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے کمشنر ایف سی آر پشاور کو ہدایت کی ہے کہ مذکورہ خاتون کی اپیل کی سماعت 10 روز میں مکمل کر کے اس کی رپورٹ عدالت میں ارسال کرے۔ نیز چیئرمین لیگل ایڈ کمیٹی پاکستان بار کونسل اسلام آباد مذکورہ خاتون کو قانونی معاونت مہیا کریں۔