نواز شریف کی کل جماعتی کانفرنس کی کامیابی کی ذمہ داری پیپلز پارٹی پر ہے‘ مسلم لیگ(ن)۔امید ہے پیپلز پارٹی جنرل پرویز مشرف کا ساتھ نہیں دے گی ۔ اگر ایسا ہوا تو قوم پیپلز پارٹی کو معاف نہیں کرے گی ۔ صدیق الفاروق کا پریس کانفرنس سے خطاب

اتوار 21 جنوری 2007 15:04

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین21جنوری2007 ) پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف کی طرف سے اعلان کردہ آل پارٹیز کانفرنس کو کامیاب بنانے کی ذمہ داری پیپلز پارٹی پر ہے ہمیں یقین ہے کہ پیپلز پارٹی جمہوریت کے فروغ کو چھوڑ کر جنرل مشرف کا ساتھ نہیں دے گی لیکن پیپلز پارٹی نے ایسا کیا تو قوم معاف نہیں کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار (ن) لیگ کے مرکزی رہنما صدیق الفاروق نے پارٹی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کی طرف سے اعلان کردہ کل جماعتی کانفرنس کی وجہ سے جنرل مشرف اور اس کے حکمران اتحادیوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں انہوں نے کہا کہ ہرجمہوری پارٹی بشمول پی پی پی کے ان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات میں فیصلے کریں لیکن ہمیں یقین ہے کہ پی پی پی جمہوریت کی بحالی کا راستہ چھوڑ کر جنرل مشرف کا ساتھ نہیں دے گی لیکن پی پی پی نے ایسا کیا تو قوم ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی انہوں نے کہا کہ پی پی پی کی ذمہ داری ہے کہ کل جماعتی کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے کردار ادا کرے تاہم اگر پی پی پی کی طرف سے اے پی سی بلائی جاتی تو میاں نواز شریف ضرورت شرکت کرتے انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کا مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا دورہ اپنی وردی کو بچانے کے لئے ہے انہوں نے مزید کہا کہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات طارق عظیم نے جو ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف بیان جاری کئے ہیں وہ قوم کے ہیرو کی تذلیل کے مترادف ہے کیونکہ انہوں نے ملک کو ناقابل تسخیر بنایا اور ایک دو کوڑی کا وزیر ان کی عظمت کے خلاف بیان دیتا پھر رہا ہے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر کی صحت کے لئے فوج کے ترجمان جو بیانات جاری کررہے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہیں حقیقت میں ڈاکٹر قدیر خان سخت بیمار ہیں ان کو رشتے داروں سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر خان کی صحت کے بارے میں ہفتہ وار میڈیا کو بریفنگ دی جائے اور ان کے ساتھ ان کے رشتہ داروں دوستوں اور ممبران پارلیمنٹ کو ملنے کی اجازت دی جائے جبکہ جنرل مشرف امریکہ اور اسرائیل کے کہنے پر ان کے خلاف سازشیں بند کردیں ورنہ قوم جنرل مشرف کو مجرم قرار دے گی انہوں نے مزید کہا کہ قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان بدستور سخت مشکل میں ہیں لیکن حکومت نے ان کے خاندان کے افراد کو خوفزدہ کر کے چپ کر ا دیا ۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر صاحب کی بحالی صحت کیلئے آزاد فضا انتہائی ضروری ہے لیکن خوفزدہ حکمران غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے انکی آزادی سلب کئے بیٹھے ہیں۔انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکہ کے چوٹی کے ایٹمی ماہر اور کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ایٹمی عدم پھیلاؤ پروگرام کے ڈائیریکٹر George Perkovichرواں مہینے کے دوران کہہ چکے ہیں کہ ،\'\'خان نیٹ ورک نے نہ تو کوئی بین الاقوامی قانون توڑا ہے اور نہ کوئی بین الاقوامی جرم کیا ہے\'\'۔

ایران کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری جنرل اور ایٹمی امور کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار مسٹر علی لاریجانی نے دو ماہ قبل تہران میں باقاعدہ بتا چکے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایران کے ایٹمی پروگرام میں کوئی مدد نہیں کی ۔ اسی طرح شمالی کوریا کے ایٹمی دھماکے کی نوعیت سے بھی یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔

ان تمام حقائق نے صدر بش اور انکی پیروی میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے ڈاکٹر خان پر لگائے گئے تمام الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد ثابت کر دیا ہے ۔اس لئے قوم کے معصوم ہیرو کو بلاتاخیر رہا کیا جانا ناگزیر ہو چکا ہے ۔ صدیق الفاروق نے یہ باتیں وزیر مملکت طارق عظیم کی طرف سے ڈاکٹر خان پر لگائے جانے والے الزام کے جواب میں اتوارکوایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

انہوں نے کہا کہ غیر ملکی مفادات کی خاطر شدید بیمار اور قید تنہائی کے شکار قومی ہیروکی کردار کشی کرنے والے یاد رکھیں کہ خدا ، قوم اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی طرف سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صحت کے بارے میں جاری کئے جانے والے بیانات کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ اس بیان کے اگلے ہی دن ڈاکٹر صاحب کے خاندانی ذرائع نے آئی ایس پی آر کے بیان کی تردید کر دی جبکہ اس کے چار دن بعد انکی ہمشیرہ محترمہ رضیہ حسین نے بھی آئی ایس پی آر کی طرف سے \'\'سب اچھا\'\'کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ ،\'\'ڈاکٹر صاحب کی صحت ٹھیک نہیں ،انکی ٹانگ بھی خراب ہو رہی ہے ۔

صدیق الفاروق نے کہا کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے مادر وطن کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے یورپ کی آزاد فضا اور دلکش تنخواہ اور مراعات کو چھوڑ کرمسلسل10سال کی رضاکارانہ قید کاٹی اور پاکستان کو خدا کے فضل سے ایٹمی قوت بنا دیا ۔اب گزشتہ ساڑھے تین سال سے پاکستان دشمنوں کے مطالبے پرشدید بیمار قومی ہیرو کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرتے ہوئے انہیں قید تنہائی کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان کی پسند کے ڈاکٹروں سے معائنہ اور علاج کیا جائے اور وہی ڈاکٹر انکی صحت کے بارے میں ہفتہ وار رپورٹ قوم کے سامنے پیش کریں ۔اس کے علاوہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور ان کے دور اور نزدیک کے رشتہ داروں اور ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کو ان سے ملنے کی مکمل آزادی ملنی چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام 1950کی دہائی میں امریکہ کی مدد سے شروع کیا تھا ۔

سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد ایران نے 1989میں یعنی 18سال پہلے وسط ایشیا کی نوآزاد ریاستوں سے سائنس دان اور ضروری ایٹمی مواد حاصل کر کے اپنے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے کام شروع کر دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد نے 31اگست 2006ء کو ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی اپنی تقریر میں کہا کہ پابندیوں کے باوجود ایران نینیوکلئیر فیول سائیکل اور بھاری پانی(Nuclear Fuel cycle and Heavy water) بنانے کی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔

اس سے پہلے انہوں نے 12اپریل2006ء کو کہا تھا کہ دنیا کیلئے لازم ہے کہ وہ ایران کو ایک ایٹمی قوت تسلیم کرے ۔ مسلم لیگی رہنما نے یاد دلایا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سربراہی میں پاکستان نے بھی 1984میں ایٹم بم بنا کر اس کا Cold Testکر لیا تھا۔ پھر 14سال بعد 28مئی 1998کو بھارت کے ایٹمی دھماکو ں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپنے ایٹمی طاقت ہونے یا نہ ہونے کا باقاعدہ اعلان کرنا ایرانی حکومت کے اختیار میں ہے تاہم ،ماضی میں اسرائیل خطے کی واحد ایٹمی طاقت تھی ۔

اب مشرق وسطیٰ میں شائد طاقت کا توازن کسی حد تک برابر ہو چکا ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صدر بش کیلئے ایران پر فضائی حملہ کرنا اب ممکن نہیں رہا کیونکہ ایسا کرنے سے اسرائیل کی سلامتی اور دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ جب ان سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کی بش منصوبہ بندی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادتیں انتہائی دانش مند ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان Working Relationshipموجود ہے ۔ جسے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے ایران اور سعودی عرب کی قیادتوں پر انتہائی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایران کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ خطے کی چھوٹی ریاستوں کے خدشات موثر طور پر دور کرے تاکہ مسلمان ریاستوں کو الگ الگ کر کے شکار کرنے کی مسلمان دشمن سازشیں مکمل طور پر ناکام ہو جائیں۔ایشیائی ایٹمی قوتوں کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایشیائی ممالک کوبرا عظم کے بہترین مفاد میں متفقہ ایٹمی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے ۔اس مقصد کیلئے ایشیائی ایٹمی کانفرنس بلانا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔