سپریم جوڈیشل کونسل کا چھٹا اجلاس کل ہو گا، حکومتی وکلاء ایس جے سی میں بیٹھنے والے تین ججز کی پوزیشن پر دلائل دینگے،سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو معطل کئے جانے ، ایس جے سی کی تشکیل اور صدارتی ریفرنس کی کھلی سماعت کے حوالے سے کل تین پٹیشنزدائر کی جائیں گی،اپوزیشن جماعتوں، وکلاء کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا اعلان، احتجاج کو ناکام بنانے کیلئے پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری، اپوزیشن کے رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکن گرفتار

منگل 17 اپریل 2007 17:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17اپریل۔2007ء) سپریم جوڈیشل کونسل غیر فعال چیف جسٹس کیخلاف صدارتی ریفرنس کی چھٹی سماعت بدھ کرے گی، اپوزیشن کے احتجاج کو ناکام بنانے کیلئے حکومت نے حکمت عملی طے کرلی گئی ہیں اور ملک بھر میں دو روز سے کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے ، سینکڑوں افراد گرفتار کرلئے گئے، اسلام آباد میں پنجاب پولیس اور رینجرز کے اضافی دستے طلب کرلئے گئے اس بار سپریم کورٹ کے سامنے کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوگی، اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے ہدایات جامہ جاری کر دیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیخلاف صدارتی ریفرنس کی چھٹی سماعت آج بروز بدھ صبح ساڑھے نو بجے ہوگی۔ کونسل کے اجلاس کی سربراہی قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کریں گے جبکہ کونسل کے دیگر ارکان میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس افتخار حسین چوہدری اورسندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس صبیح الدین شامل ہوں گے جبکہ صدارتی ریفرنس میں غیر فعال چیف جسٹس کی جانب سے چوہدری اعتزاز احسن کے علاوہ منیر اے ملک، حامد علی خان، طارق محمود، علی احمد کرد اورقاضی انور پیش ہوں گے جبکہ حکومت کی طرف سے خالد رانجھا، وسیم سجاد، چوہدری محمد عارف، امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ اور اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان پیش ہوں گے۔

(جاری ہے)

جبکہ کونسل میں تین ججوں کی پوزیشن کے معاملے پر غیر فعال چیف جسٹس کے وکلاء کے دلائل مکمل ہوگئے تھے جس کے بعد آج حکومتی وکلاء دلائل دیں گے۔ جبکہ آج بدھ کو صدارتی ریفرنس کے خلاف معطل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی جائے گی اور درخواست چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن دائر کریں گے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی آئینی حیثیت اور اس کی کھلی سماعت اور سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل کے حوالے سے ہو گی۔

جبکہ اس کے علاوہ مزید 2 آئینی پٹیشن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کی طرف سے بھی دائر کی جائیں گی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے وکیل جسٹس (ر) طارق محمود نے اس کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تینوں درخواستیں انتہائی اہم ہیں اور یہ آج سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کے موقع پر دائر کی جائیں گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان بار کونسل کی طرف سے آئینی درخواست علی احمد کرد ایڈووکیٹ دائر کرینگے جس میں حامد خان بار کونسل کے وکیل ہونگے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کی جانے والی آئینی درخواست منیر اے ملک دائرکریں اور اس میں جسٹس (ر) طارق محمود ان کے وکیل ہونگے۔

اس طرح چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے جو آئینی درخواست دائر کی جائے گی اس میں صدارتی ریفرنس کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا جائے گا ان کے معطل کئے جانے کے فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا اور سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے سے اعتراضات داخل کئے جائیں گے ۔ یہ پٹیشن چیف جسٹس کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن دائر کریں گے۔ واضح رہے کہ 13 اپریل کو سپریم جوڈیشل کونسل نے غیر فعال چیف جسٹس کیخلاف صدارتی ریفرنس کی پانچویں سماعت آئندہ پانچ دن تک کیلئے ملتوی کر دی تھی سماعت جمعہ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیخلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کی گئی تھی۔

اجلاس کی سربراہی کونسل کے صدر اور قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس نے کی جبکہ دیگر ججز صاحبان میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس صبیح الدین شامل تھے۔ صدارتی ریفرنس کی سماعت مقررہ وقت سے آدھے گھنٹے کی تاخیر سے صبح 10 بجے شروع ہوئی تھی جو کہ تقریباً 3 گھنٹے تک جاری رہی اس دوران سپریم جوڈیشل کونسل میں بیٹھنے والے تین ججز صاحبان جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس افتخار حسین چوہدری کی پوزیشن پر بحث کی گئی اس دوران چوہدری اعتزاز احسن نے تینوں ججز صاحبان کے حوالے سے اپنے اعتراضات، تحفظات اور آئینی و قانونی حوالے سے اپنے دلائل مکمل کئے۔

جبکہ غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے چوہدری اعتزاز احسن کے علاوہ منیر اے ملک، حامد علی خان، طارق محمود، علی احمد کرد اورقاضی انور پیش ہوئے جبکہ وفاق کی طرف سے سینیٹر خالد رانجھا، وسیم سجاد، چوہدری محمد عارف، امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ اور اٹارنی جنرل آف پاکستان مخدوم علی خان سپریم جوڈیشل کونسل کے نوٹس پر پیش ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ 16 مارچ کی سماعت میں حکومت کے وکیل راجہ عبدالرحمن ایڈووکیٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے قواعد و ضوابط کے بارے میں دلائل دیئے تھے جبکہ 3 اپریل کو ڈاکٹر خالد رانجھا نے ریفرنس کی کھلی سماعت نہ کرنے کے حوالے سے دلائل دیئے تھے جبکہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے تمام سماعتوں کے دوران صرف بیرسٹر اعتزاز احسن نے دلائل دیئے تھے۔

جبکہ سماعت کے بعد غیر فعال چیف جسٹس کے وکلاء جسٹس طارق محمود اور منیر اے ملک نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کونسل کی سماعت میں اوپن ٹرائل کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی کیونکہ اس پر فیصلہ محفوظ ہے جبکہ سماعت میں 3 ججوں کی پوزیشن کے حوالے سے چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے دلائل دیئے۔ منیر اے ملک نے بتایا تھا کہ سماعت کے دوران تین ججوں کا رویہ متعصبانہ ہے ان ججوں کو خودبخود کونسل سے چلے جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ابھی اوپن ٹرائل پر فیصلہ محفوظ ہے لہٰذا ابھی اس پر فیصلہ واپس نہیں آ سکتا جبکہ ہمارے اعتراضات کا جواب تمام اعتراضات پر بحث مکمل ہو جانے کے بعد آئے گا۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ سماعت میں دو ججز جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس جاوید اقبال زبان سے بھی متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں جبکہ جسٹس افتخار حسین چوہدری بولتے تو نہیں لیکن دل سے تعصب کرتے ہیں۔

غیر فعال چیف جسٹس کے وکیل طارق محمود نے بتایا تھا کہ سماعت میں ججز کے متعصبانہ رویے پر بات ہوئی ہے۔ طارق محمود نے بتایا تھا کہ اس معاملے پر مزید بحث 18 اپریل کو ہونے والی سماعت میں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اوپن ٹرائل کا کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوا جبکہ ہفتے میں دودن سماعت رکھنے کے بارے میں آئندہ ہونے والی سماعت میں غور کیا جائے گا۔

جبکہ 18 اپریل کو سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں اور وکلاء نے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ دوسری جانب حکومت نے اس احتجاج کو ناکام بنانے کیلئے اپوزیشن رہنماؤں و کارکنوں کے خلاف دو روز قبل ہی کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اب تک کئی رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیاہے صرف پنجاب میں 80 سے زائد اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتارکیا جا چکا ہے۔

راولپنڈی میں کریک ڈاؤن کے دوران دو درجن سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے اس بار سپریم کورٹ کے سامنے کسی اپوزیشن جماعت کے کارکنوں کو جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے تمام جلوسوں کو سپریم کورٹ سے پہلے ہی روک دیا جائے گا سپریم کورٹ کے اردگرد آبپارہ، میلوڈی، شاہراہ دستور اورشاہراہ ایونیو پر اسلام آباد پولیس کے ساتھ ساتھ پنجاب پولیس اور رینجرز کے اضافی دستے تعینات کر دیئے گئے ہیں۔

ادھر جمعیت طلباء اسلام نے دعویٰ کیاہے کہ وفاقی پولیس نے گزشتہ روز جے ٹی آئی پنجاب کے صدر محمد احمد مدنی کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرلیا اورنامعلوم مقام پر منتقل کردیا جبکہ راولپنڈی اور وفاقی دارالحکومت میں ایم ایم اے، پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) سمیت اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنماؤں و کارکنوں کوگرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن رہنماؤں نے گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس قسم کے حربے ان کو احتجاج سے نہیں روک سکتے ہیں ۔ اپوزیشن رہنماؤں قاضی حسین احمد ، مولانا فضل الرحمان ، اقبال ظفر جھگڑا اور دیگر نے کہا کہ گرفتاریوں سے احتجاج نہیں رکے گا بلکہ یہ احتجاج ہر صورت کیا جائے گا اور اس سے تحریک مزید زور پکڑے گی۔