میموگیٹ اسکینڈل‘ عاصمہ جہانگیرنے حقانی کا دوسرا خط پیش کردیا،وطن واپسی سے انکار،سپریم کورٹ کی برہمی ، عدالت نے حسین حقانی کو طلب کیا تھا ، اس ملک کا ہر فرد عدالتی حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے،یہ طے ہو چکا، جب کوئی حکم کے باوجود پیش نہ ہو کیا سمجھا جا ئے، پھر ہمیں حقانی کو لانے کیلئے جبری طریقے اختیار کرنا ہوں گے،چیف جسٹس کے ریمارکس، آپ نے جو کرنا ہے کر لیں، میں ذاتی طور پر تو جا کر انہیں نہیں لا سکتی، عاصمہ جہانگیر، عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا، سماعت12فروری تک ملتوی

پیر 28 جنوری 2013 16:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔ 28جنوری 2013ء ) سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیرنے پاکستان میں سیکیورٹی سے متعلق حسین حقانی کا دوسرا خط پیش کردیا اور کہا کہ ان کے موکل نے پاکستان آنے سے انکار کردیا ہے ۔چیف جسٹس نے حسین حقانی کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ عدالت نے انہیں طلب کیا تھا ، اس ملک کا ہر فرد عدالتی حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے،یہ طے ہو چکا، جب کوئی حکم کے باوجود پیش نہ ہو کیا سمجھا جا ئے، پھر ہمیں حقانی کو لانے کیلئے جبری طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔

عدالت نے میں حسین حقانی کو تحفظ دئیے جانے کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 12 فروری تک ملتوی کردی۔

(جاری ہے)

پیر کوچیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ ان کے موکل حسین حقانی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پاکستان نہیں آ سکتے، انہوں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عدالت نے حسین حقانی کو طلب کیا تھا، اس ملک کا ہر فرد عدالتی حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ حسین حقانی نے اپنے خط میں لکھا وہ عدالت کے حکم کی تعمیل میں پاکستان آنا چاہتے ہیں انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو سیکورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ طے ہو چکا، جب کوئی حکم کے باوجود پیش نہ ہو کیا سمجھا جائے۔

جس پر عاصمہ جہانگیر نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو کرنا ہے کر لیں، میں ذاتی طور پر تو جا کر انہیں نہیں لا سکتی۔جس کے بعد عاصمہ جہانگیر نے حسین حقانی کا دوسراخط عدالت میں پیش کیا، عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بھی حسین حقانی کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ وزارت خارجہ و داخلہ تحقیقات کرائیں کون دھمکیاں دے رہا ہے۔ جس پر عدالتی بینچ کا کہنا تھا کہ ہمیں خطرات کا علم نہیں حاضری سے متعلق حکم پر عمل چاہتے ہیں۔

عدالتی بینچ کا کہنا تھا کہ حسین حقانی31دسمبر کو سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ چکے ہیں۔ 26جنوری کو بھی لکھا گیاخط عدالت میں پیش کردیا گیا ہے۔ تاہم سیکریٹری داخلہ نے حسین حقانی کی سیکیورٹی سے متعلق جواب نہیں دیا۔ جبکہ کرائسز مینجمنٹ سیل کے مطابق وکیل نے حقانی کی آمد سے متعلق کچھ نہیں لکھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ 13 نومبر کے حکم کے مطابق حقانی کی سیکیورٹی کیلئے اقدامات کرنے کو کہا تھا، اس کا واضح مطلب ہے ہم حقانی کو ہر حال میں بلانا چاہتے ہیں، جس پر حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ حسین حقانی آئے ہیں نہ ہی ملک میں ہیں۔

جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پھر ہمیں حقانی کو لانے کیلئے جبری طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر عاصمہ جہانگیر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ جو چاہیے طریقہ اختیار کرلیں۔سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو آئندہ سماعت میں ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ بتائیں عاصمہ جہانگیر کے 31 دسمبر کے خط پر کیا کارروائی ہوئی۔ اگر کوئی اقدامات کیے گئے ہیں توحقانی کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا۔عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے جواب طلب کرلیا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 12فروری تک ملتوی کردی گئی۔