سعودی عرب میں نمازوں کے دوران دکانوں کی بندش پر بحث

ہفتہ 14 جون 2014 13:54

سعودی عرب میں نمازوں کے دوران دکانوں کی بندش پر بحث

ریاض (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 14جون 2014ء) سعودی عرب میں نمازوں کے اوقات کے دوران دکانوں کی بندش کا معاملہ سماجی روابط کی ویب سائٹس خاص طور پر ٹویٹر پر بحث کا بڑا موضوع بن چکا ہے اور طرفین بندش کے حق اور مخالفت میں دلائل پیش کئے جارہے ہیں،عرب ٹی وی کے مطابق اس پابندی کے مخالفین مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ہیش ٹیگ کی تشہیر کررہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ''نماز کے لیے دکانوں کی جبری بندش ادارہ جاتی ہے۔

اس بحث میں حصہ لینے والے بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ دکانوں کو بند کرنے کا اقدام کالعدم قراردیا جانا چاہیے۔بعض نے تجویز دی ہے کہ فارمیسیوں (دوا خانوں) اور گیس اسٹیشنوں کی طرح دکانوں کو بھی نمازوں کے اوقات کے دوران کھلا رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

(جاری ہے)

معروف اسلامی اسکالر احمد الغامدی نے العربیہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ایک مختلف موقف پیش کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے:''اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کاروباروں کی بندش کا معاملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دکانیں بند کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا اور جو لوگ نماز کے لیے دکانیں بند نہیں کرتے تھے تو اس پر ان کا احتساب (مواخذہ) بھی نہیں کیا تھا۔علامہ الغامدی کا کہنا ہے کہ اسلامی شریعت نے لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات کے دوران اپنے کاروبار کو بند کردیں لیکن انھیں ان کی دکانیں بند کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ سعودی مذہبی پولیس کی جانب سے دکانیں زبردستی بند کرانے کے بہت سے منفی مضمرات ہوسکتے ہیں۔اس ایشو کی وجہ سے سماجی اور سکیورٹی کی سطح پر نقصانات ہوئے ہیں۔میری نظر میں ہمیں لوگوں پر یہ زوردینا چاہیے کہ وہ اجتماعی طور پر اپنی نمازیں ادا کریں لیکن لوگوں کے لیے دکانوں کی بندش اختیار ہونی چاہیے۔یہ مذہب اور جدیدیت کے عین مطابق ایک مناسب اقدام ہوگا۔

بعض ٹویٹر صارفین نے مذکورہ ہیش ٹیگ پر کڑی تنقید بھی کی ہے اور اپنے تبصرے میں اس کی تشہیر کرنے والوں کے لیے لکھا ہے کہ ''آپ مہنگائی ،فراڈ اور حفظان صحت ایسے زیادہ اہمیت کے حامل ایشوز کو چھوڑ کر ایک غیر اہم معاملے کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔منصور ایس آئی نامی ایک صارف نے اس معاملے سے جڑے ہوئے ایک اور اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔

ان صاحب نے لکھا ہے کہ نمازوں کے اوقات کے دوران دکانوں کی بندش سے شاہراہوں پر افراتفری کا عالم ہوتا ہے اور ڈرائیور حضرات دکانیں بند ہونے سے پہلے پہنچنے کے لیے تیز رفتاری سے گاڑیاں بھگاتے ہیں۔انھوں نے سعودی عرب کی مذہبی پولیس کو اس تمام صورت حال کا ذمے دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اس کے اہلکار غریب کارکنوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں انھیں جیل بھیج دیتے ہیں۔

تاہم کسی تبصرہ نگار نے یہ نہیں لکھا ہے کہ گاہکوں کو نمازوں کے اوقات کے دوران ہی کیوں تمام خریداری کی ضرورت پیش آجاتی ہے اور وہ نماز کے لیے چند منٹ تک دکانیں کھلنے کا انتظار کیوں نہیں کرسکتے۔وہ دوسرے اوقات میں خریداری کو کیوں ترجیح نہیں دیتے تاکہ انھیں کسی قسم کی مشکل سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

متعلقہ عنوان :