بلوچستان سے نکلنے والی گیس کے ذخائر کا ملکی پیداوار میں مجموعی طور پر حصہ 20 فیصد ہے گیس سرچارج اور رائلٹی کی مد میں بلوچستان کو ملنے والی رقم تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے، میر خالد خان لانگو

اگر بین الاقوامی معیار کی کمپنیوں کو بلوچستان میں گیس کے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے نئے پروجیکٹس شروع کرنے کی جانب راغب نہ کیا گیا تو کچھ ہی عرصے میں گیس کے موجودہ کنویں خشک ہوجائینگے، صوبے کی معیشت کو دھچکا لگ سکتا ہے سیکرٹ فنڈ صرف کرپشن کی نظر نہیں ہونگے ، اس سے امن وا مان کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی وزراء کی تنخواہ میں اضافہ اس لئے کیا گیا کہ وہ کرپشن کی طرف مائل نہ ہوں ،مشیر خزانہ بلوچستان کی سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے ہمراہ پوسٹ بجٹ بریفنگ میں میڈیا سے بات چیت

جمعہ 20 جون 2014 20:00

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین20۔جون۔2014ء) بلوچستان سے نکلنے والی گیس کے ذخائر کا ملکی پیداوار میں مجموعی طور پر حصہ 20 فیصد ہے جبکہ گیس سرچارج اور رائلٹی کی مد میں بلوچستان کو ملنے والی رقم تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے جس کی بنیادی وجہ گیس کے نئے ذخائر کی دریافت نہ ہونا اس جانب حکومتی عدم دلچسپی ہے اگر بین الاقوامی معیار کی کمپنیوں کو بلوچستان میں گیس کے ذخائر کی دریافت کے حوالے سے نئے پروجیکٹس شروع کرنے کی جانب راغب نہ کیا گیا تو کچھ ہی عرصے میں گیس کے موجودہ کنویں خشک ہوجائینگے جس سے صوبے کی معیشت کو دھچکا لگ سکتا ہے سیکرٹ فنڈ صرف کرپشن کی نظر نہیں ہونگے بلکہ اس سے امن وا مان کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی وزراء کی تنخواہ میں اضافہ اس لئے کیا گیا کہ وہ کرپشن کی طرف مائل نہ ہوں یہ بات مشیر خزانہ میر خالد خان لانگو نے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے ہمراہ پوسٹ بجٹ بریفنگ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہاکہ صوبے کی تاریخ میں پہلی دفعہ 50 ارب سے زائد کی خطیر رقم ترقیاتی منصوبوں کیلئے رکھی گئی ہے جس سے ہزاروں افراد کو روز گار کی فراہمی ممکن ہوگی انہوں نے کہاکہ صوبے سے نکلنے والی گیس کی پیداوار تیزی سے کم ہورہی ہے اگر نئے کنوؤں کی دریافت کیلئے حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو موجودہ تمام کنویں خشک ہوجائینگے انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری صوبے سے ختم ہوتی جارہی ہے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان انوسٹمنٹ بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بلوچستان میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کیا جاسکے انہوں نے کہاکہ موجودہ مالی سال کی کوئی بھی ترقیاتی سکیم ختم نہیں کی گئی بلکہ جہاں جن علاقوں میں امن و امان کا مسئلہ تھا ان علاقوں سے دوسرے علاقوں کو منتقل کردی گئی ہیں انہوں نے کہاکہ ٹیکس اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے تاکہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھایا جائے اور جو ٹیکس کی مد میں ریونیو حاصل ہو اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاسکے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آغاز حقوق بلوچستان کے تحت وفاق نے سیندک پروجیکٹ میں صوبے کو 30 فیصد اضافی محاصل دینے کا وعدہ کیا تھا جو تاحال وصول نہیں ہوسکے انہوں نے کہاکہ حکومت گڈ گورننس کے وعدے پر قائم ہے اور نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے تحت 6 ہزار اساتذہ کو بھرتی کیا جائیگا جبکہ 12 ہزار دیگر سرکاری ملازمین کو ریگولر کیا گیا ہے مشیر خزانہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کا فیصلے کا کیا ہے حکومت بلوچستان بھی اس اضافے کو پوری طرح اپنائیگی کنوئنس الاؤنس اور میڈیکل الاؤنس میں اضافہ کیا جارہا ہے جس سے حکومت کو 5 ارب کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا انہوں نے کہاکہ 5 ارب انڈومنٹ فنڈ کیلئے رکھے گئے ہیں جس کے تحت صوبے کے لائق طلباء کو ملک اور بیرون ملک تعلیم کے حوالے سے بھیجا جائیگا جو واپس آکر صوبے کیلئے اثاثہ ہونگے مشیر خزانہ نے مزانیہ 2014-15ء کے مندرجات بتاتے ہوئے کہاکہ مزانیہ کا کل حجم 215 ارب 71 کروڑ 30 لاکھ روپے ہے جس میں جاری اخراجات 135 ارب 5 کروڑ سرمایہ جاتی اخراجات 29 ارب 92 کروڑ 10 لاکھ روپے ترقیاتی اخراجات 50 ارب 74 کروڑ 20 لاکھ روپے ہے جبکہ 2014-15ء کیلئے آمدن کا تخمینہ 200 ارب 5 کروڑ 10 لاکھ روپے ہیں جس میں جاری آمدن 176 ارب 77 کروڑ 20 لاکھ روپے اور سرمایہ جاتی آمدن 23 ارب 27 کروڑ 90 لاکھ روپے بیرونی امدادی قرضہ 2 ارب 79 کروڑ 20 لاکھ جبکہ صوبائی ذرائع سے حاصل شدہ 8 ارب 97 کروڑ روپے ہے انہوں نے مزید بتایا کہ مرکزی ذرآئع سے آمدن 167 ارب 80 کروڑ 12 لاکھ روپے جبکہ پی ایس ڈی پی کا حجم 50 ارب 74 کروڑ 20 لاکھ روپے ہے جس میں بیرونی امداد کے 2 ارب 72 کروڑ 30 لاکھ شامل ہیں ۔