ہانگ کانگ: مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں،مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے مرچوں کا سپرے کیا گیا

اتوار 28 ستمبر 2014 23:57

ہانگ کانگ سٹی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28ستمبر۔2014ء) ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامی مظاہرین اور بلوہ پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں جسے حکام نے ’غیر قانونی‘ عمل کو روکنے کی کوشش قرار دیا ہے۔مقامی میڈیارپورٹ کے مطابق مظاہرین نے پولیس کی رکاوٹیں پار کرنے کی کوشش کی جس کے بعد انھیں منتشر کرنے کے لیے ان پر مرچوں کا سپرے کیا گیا۔

مظاہرین چاہتے ہیں کہ چین آئندہ انتخابات میں اس خطے کے لیے عائد پابندیاں ختم کرے۔ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹو سی وائی لیئنگ کا کہنا ہے کہ انتخابات منصوبے کے مطابق ہوں گے تاہم انھوں نے مزید صلاح مشورے کا وعدہ کیا۔مظاہروں کے آغاز کے بعد اپنے پہلے عوامی بیان میں مسٹر لیئنگ نے کہا کہ وہ اور ان کی حکومت عوام کی بات بہت غور سے سن رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انھوں نے صلاح و مشورے کے ایک اور دور کا وعدہ کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ غیر قانونی مظاہروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ایک ہفتے سے جاری مظاہروں میں ہفتے کے اختتام پر ہزاروں افراد حکومتی صدر دفاتر کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔سب سے پہلا مظاہرہ طلبا کی جانب سے جمہوری اصلاحات کے مطالبے پر ہوا۔گزشتہ رات ’اوکوپائی سنٹرل‘ نام کی ایک دوسری تحریک کے مظاہرین بھی حکومتی دفاتر کے باہر موجود طلبا کے ساتھ شامل ہو گئے۔

اس احتجاجی تحریک کا مقصد چینی حکومت کی جانب سے بنائے گئے ان قوانین کی منسوخی ہے جن کے تحت چین ہانگ کانگ کے سنہ 2017 کے لیے منتخب چیف ایگزیکٹو کی چھان بین کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ جمہوری اصلاحات کے لیے ان سے مشاورت کا سلسلہ بحال کیا جائے۔تحریک کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سی وائی لیئنگ سیاسی اصلاحات کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کے طلبا رہنما جوشوا وانگ سمیت 60 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے۔علاقے میں بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب چین کی حکومت نے اعلان کیا کہ سنہ 2017 کے لیے چیف ایگزیکٹو کے امیدواروں کے نام پہلے نامزدگی کے لیے قائم کمیٹی سے منظور کروائے جائیں گے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔کئی افراد نے رات سڑکوں پر گزاری اور پولیس کی جانب سے مرچوں کا سپرے کیے جانے کے خدشے کے پیشِ نظر پلاسٹک کی برساتیاں اور چشمے پہنے رکھے۔حکام کا کہنا ہے مظاہروں کے آغاز سے اب تک کم سے کم 34 افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں پولیس اہلکار اور 11حکومتی اہلکار بھی ہیں۔

متعلقہ عنوان :