مغربی خواتین کی داعش میں شمولیت کی ممکنہ وجوہات سامنے آگئیں

جمعرات 9 اکتوبر 2014 15:58

مغربی خواتین کی داعش میں شمولیت کی ممکنہ وجوہات سامنے آگئیں

لندن ، پیرس، دمشق(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9اکتوبر 2014ء) مغربی ممالک کی کئی خواتین عراق اور شام میں سرگرم جنگجوتنظیم ISISمیں شمولیت کیلئے ترکی کے راستے شام پہنچ چکی ہیں جہاں امریکہ ، آسٹریلیا اور فرانس سمیت کئی ممالک کی خواتین موجود ہیں ، ایک اندازے کے مطابق اِن خواتین کو ISISکی طرف راغب کرنے میں سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے جہاں اُنہیں داعش کے جنگجوﺅں کی طرف سے شادی کی پیشکش اور بہترزندگی گزارنے کی آفرہوتی ہے ، اِنہی ویب سائٹوں کی مدد سے اُنہیں سفر میں مدد اور اعانت فراہم کی جاتی ہے جبکہ کئی خواتین پہلے سے موجود اپنے شوہروں سے ملاقات کیلئے گئی تھیں ۔

برطانوی میڈیا کے مطابق فرانس سے شام جانے والی لڑکیوں کے گھر والوں کو کئی شامی مردوں کے فون آ چکے ہیں جو ان کی بیٹیوں کا رشتہ مانگ رہے تھے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب جہادی مردوں کے آن لائن اکاو¿نٹس میں ایسی خواتین کے پیغامات کی بھرمار ہے جو ا±ن کی بیویاں بننے کی خواہش مند ہوتی ہیںجبکہ کئی دیگر خواتین کی کہانیاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر موجود ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ ایسی خواتین کے معاملے میں معاشرتی رابطوں کی ویب سائٹس کا کردار خاصا بڑا ہے۔

یہ ویب سائٹس خواتین کو نہ صرف سفر میں مدد اور اعانت فراہم کرتی ہیں بلکہ ان ہی ویب سائٹس کے ذریعے وہ دولتِ اسلامیہ کے پروپیگنڈے کی قائل بھی ہوتی ہیں ۔ شروع شروع میں شام جانے والی مغربی خواتین کی اکثریت ان پر مشتمل تھی جو اپنے شوہروں سے ملنے وہاں گئی تھیں جو پہلے سے ہی وہاں جہاد پر جا چکے تھے لیکن ایسی خواتین کے معاملے میں ان کے اپنے گھرانے کا کردار اہم رہا ہے۔


حالیہ عرصے میں مغربی ذرائع ابلاغ میں بیشتراوقات ’جہادی دلہنوں‘ کا ذکر ملتا ہے جن سے مراد ایسی خواتین ہیں جو شام میں لڑنے والے جہادی مردوں سے شادی کی غرض سے وہاں جاتی ہیں اوراُن میں ایک یونیورسٹی کی طالبہ اقصیٰ حسین بھی شامل ہے ۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف ماساچیوسٹ سے منسلک محقق میا بلوم نے کہاکہ جہادی مرد ایسی خواتین کو ’بچے پیدا کرنے کی فیکٹریاں‘ سمجھتے ہیں جن کا بہترین مصرف یہ ہے کہ وہ ایک نئی ’مکمل اسلامی‘ ریاست کو مستقبل کے شہری فراہم کریںلیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ نوجوان خواتین محض شوہروں کی تلاش میں شام جا رہی ہیں، ان خواتین کی کہانی محض ’جہادی دلہن‘ کے نظریے سے نہیں دیکھ سکتے۔


اُنہوں نے کہاکہ خواتین دولت اسلامیہ میں اس لیے شامل ہوتی ہیں کہ اس سے انھیں ایک ایسی سنہری سیاست میں شامل ہونے کا احساس ہوتا ہے جہاں وہ جہاد میں شامل ہونے کے علاوہ ایک نئی اسلامی ریاست کے قیام میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں، ایسی خواتین کے آن لائن اکاﺅنٹس سے ظاہرہوتاہے کہ مغربی ریاستیں اُنہیں یہ احساس دینے میں ناکام ہو گئی ہیں کہ وہ بھی ان معاشروں کی برابر کی شہری ہیں، ان کے خیال میں ان کی بطور مسلمان قدر نہیں کی جاتی اور یہاں مغرب میں ان کی زندگی کا کوئی خاص مقصد نہیں ہے۔


بی بی سی کے مطابق ایسی ہی ہالینڈ کی شام پہنچنے والی شہری خدیجہ نے امریکی ویب سائیٹ ’المانیٹر‘ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ وہ ہمیشہ سے شریعت کے تحت رہنا چاہتی تھی لیکن ایسا کبھی یورپ میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔میا بلوم نے کہاکہ ایسی خواتین کو مغربی معاشرے میں اسلام پر عمل کرنے میں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے (مثلاّ فرانس میں برقعے پر پابندی) اور وہ مغرب کے سیاسی نظام پر تنقید کرتی ہیں تاہم ان کی باتوں میں آپ کو بہت جلد تضاد بھی دیکھنے کو ملتا ہے،ولت اسلامیہ میں شمولیت کے لیے جانے والی مغربی خواتین کے اس فیصلے کے پیچھے سیاسی اور ذاتی دونوں قسم کی وجوہات موجود ہیں لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ ان کے فیصلوں کے پیچھے ان کی سادہ لوحی اور ایک رومان بھی کارفرما ہوتا ہے۔

متعلقہ عنوان :