تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی جہالت، دہشتگردی، انتہا پسندی،

فرقہ واریت اور تعصبات کی دلدل سے نجات حاصل کر سکتی ہے،میاں منظور احمد وٹو

جمعرات 11 دسمبر 2014 22:12

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔11دسمبر 2014ء) پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو نے پیپلز پارٹی اور اپنی طرف سے ملالہ یوسفزئی اور ہندوستان کے کیلاش ستیارتھی کو تعلیم کا نوبل انعام ملنے پر دلی مبادرکباد دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی جہالت، دہشتگردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تعصبات کی دلدل سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تعلیم کی وہ ترجیح نہیں ہے جو کہ ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ابھی تک پاکستان صرف 2فیصدقومی آمدنی کا تعلیم پر خرچ کررہا ہے جو کہ قابل افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک سے بھی انتہائی کم ہے ۔ میاں منظو ر احمد وٹو نے کہا کہ انہوں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں لازمی تعلیم کا قانون 1994 میں پاس کیا جسکے تحت والدین پر لازم تھا کہ وہ سکول جانے والی عمر کے بچوں کو سکول بھیجیں، جو والدین ایسا نہیں کرتے تھے انکے خلاف مجسٹریٹ مقدمات درج کر کے انہیں جرمانے کی سزا دینے کے مجاز بھی تھے۔

(جاری ہے)

میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ انہوں نے طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری سکولوں میں انگریزی کی تعلیم پہلی جماعت سے لازمی قرار دے دی گئی تھی اور اسکے علاوہ 50 ہزار گریجوایٹس بھرتی کئے گئے تا کہ پنجاب کے تمام سرکاری سکولوں میں وہ انگریزی پڑھا سکیں۔ میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ ضلع میں تعلیم کے فروغ کی نگرانی کے لیے انہوں نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (لٹریسی) مقرر کئے جو کہ سی ایس پی (CSP) کیڈر میں سب سے قابل اور اہل افسر تھے اور انکا سٹیٹس ڈپٹی کمشنر کے تقریباً برابر رکھا تا کہ وہ پوری دل جمی سے تعلیم کے فروغ کو یقینی بنائیں۔

میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ انہوں نے تعلیمی مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لیے بڑے دوررس اقدامات کئے۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل کو متعلقہ علاقے کا معزز ترین شہری کا سرکاری طور پر سٹیٹس دیا گیا۔ اسکے علاوہ مقامی کمیٹیوں کا بھی وہ سربراہ ہوتا تھا جسکے پاس انتظامی اور مالی اختیارات تھے تا کہ کمیونٹی کی مشاورت سے سکولوں میں ترقیاتی کام مکمل کر سکیں۔

میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ موجودہ پنجاب کی حکومت نے جنگلوں میں دانش سکول کھول دئیے ہیں جہاں پر اساتذہ جانے کو تیار نہیں ہیں اور طلباء کی دلچسپی بھی خاطر خواہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت نے 28 میل کی میٹروبس پر 70 ارب روپے سے زیادہ خرچ کر دئیے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ وسائل تعلیم پر خرچ کرتے اور کروڑوں بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے اور وہ معاشرے کے لیے بوجھ کی بجائے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتے۔

میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ اگر یہ حکومت انکی تعلیمی اصلاحات پر عمل کرتی تو آج سکول کی عمر کے تقریباً ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم نہ ہوتے۔ میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کے دور میں قومی مالیاتی ایوارڈ کمیشن کے تحت صوبوں کو بے پناہ مالی وسائل ملے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان وسائل کی پنجاب کے صوبے میں بندر بانٹ جاری ہے اور من پسند منصوبوں پر انکو بے دریغ خرچ کیا جا رہا ہے۔

میاں منظور احمد وٹو نے مطالبہ کیا کہ صوبائی مالیاتی ایوارڈ کمیشن ہونا چاہیے جو کہ تمام صوبائی اضلاع کے درمیان ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے۔ اس وقت ان مالی وسائل کو چند شہری علاقوں پر خرچ کیا جا رہا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں ترقیاتی کام رُکے ہوئے ہیں جس سے وہاں کے لوگوں میں معاشی محرومی کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :