سندھ میں زرعی اصلاحات لاکر زراعت کی پیدوار میں استعمال ہونے والی کھاد میں کیمیکل کے عنصر کو ختم کرکے موثرزرعی پالیسی تشکیل دی جائے، زرعی ماہرین

جمعہ 26 دسمبر 2014 22:05

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26دسمبر 2014ء) سندھ کے سماجی رہنماؤں اور زرعی ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ میں زرعی اصلاحات لاکر زراعت کی پیدوار میں استعمال ہونے والی کھاد میں کیمیکل کے عنصر کو ختم کرکے موثرزرعی پالیسی تشکیل دی جائے، سندھ میں 72 فیصدآباد ی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

مقامی ہوٹل میںآ کسفیم گرو،ایکشن ایڈاوراین ڈی ایس کے تعاون سے سماجی تنظیم سرچ کے زیراہتمام زرعی پالیسی میں میڈیا کے کردار کے حوالے سے ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس سے خطاب میں سرچ کے ڈائریکٹر وحید جمالی نے کہا کہ سندھ پاکستان کا آبادی اور معاشی لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کی آباد کا63فیصد انحصار زراعت کے شعبہ ہے لیکن حکمرانوں کی جانب سے زراعت کے شعبہ کو مکمل طور نظرانداز کیاہے جس کی وجہ سے سندھ کی دیہی آبادی شدید معاشی مسائل کا شکار ہے ،انہوں نے کہاکہ نیشنل نیوٹریشن سروے آف پاکستان کے مطابق سندھ میں 72 فیصدآباد ی خوراک کی قلت کا شکار ہے ،زرعی فارم کے مزدور اور کسان جاگیردارانہ رویوں کا سامنا کررہے ہیں اسی لئے پیپلزنیٹ ورکٹ ان فوڈ اینڈ ایگرکلچربنایاگیا جس کا مقصدسندھ میں موثرزرعی پالیسی متعارف کراکے زرعی اصلاحات کو ممکن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ،انہوں نے کہاکہ پرویزمشرف دور میں کارپوریٹ ایگری کلچر فارمنگ کومتعارف کرایاگیا تھا جس کے تحت 15ہزار ایکڑز سے زائد زرعی زمین کسی بھی غیر ملکی کمپنیوں کو لیز پردی جاسکتی ہے جس پر آج بھی عملدرآمد کیاجارہاہے جسے فوری طور پر ختم کیاجائے، پنہل ساریو نے کہا کہ اس ملک میں جوبڑا جاگیر دار اور زمیندار ہے وہ جھوٹے کاشتکاروں کو کھا جاتا ہے ،اس صورتحال میں زرعی اصلاحات کے لئے سوائے تحریک کے کوئی اور راستہ ممکن نہیں رہا، انہوں نے کہاکہ ملک کی زراعت کو تباہ کرنے کے لئے کئی جواز پیداکئے جارہے ہیں اور زمیندار و کاشتکار اب زراعت کے بجائے انڈسٹری اور بزنس کو ترجیحی دے رہے ہیں جس کے باعث زراعت ختم ہورہی ہے،صحافی جے پرکاش مورانی نے کہا کہ سندھ میں زمینوں کو پورا سال آباد رکھا جاتا ہے جبکہ زمینوں کو کچھ دنوں کے لئے بغیر فصل کے خالی رکھا جائے تو زمین کی زرخیزی و پیدوار اضافہ ہوتا ہے لیکن یہاں زمینوں کو ایک فصل مکمل ہونے پردوسری فصل کیلئے بغیر کسی وقفہ اور چکاس کے فصل کے لئے تیار کیاجاتا ہے ،انہوں نے کہاکہ سندھ میں یونیورسٹیز بھی زر اعت کے شعبہ میں تحقیقات نہیں کررہی ہیں اور محکمہ زراعت بھی کاشتکاروں کی رہنمائی میں غیر سنجیدہ ہے جس کی وجہ سے سندھ میں زرعی شعبہ لاوارث کی حیثیت اختیار کرچکاہے ،انہوں نے کہاکہ نہ تجربہ کار کاشتکار فصلوں کو غیرفطری طریقوں سے کھاد دیتے ہیں جس کے باعث اکھنے والی فصل میں کیمیکل کے اثرات بڑھ جاتے ہیں جو کہ انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ہوتے ہیں اور انسانوں میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں، صحافی اسحاق منگریونے کہا ہے کہ زرعی شعبہ سے وابستہ کسانوں کو مناسب اجرت نہیں دی جاتی جس کے باعث کسان اور زمیندار کے درمیاں دوریاں پیدا ہورہی ہیں جس کے اثرات زرعی پیداوار پربھی پڑ ھ رہے ہیں،انہوں نے کہاکہ سندھ کے لائیو اسٹاک اورزراعت کی بہتری میں ہی ملک کی ترقی ممکن ہے، سماجی رہنماء عبدالرزاق عمرانی نے کہا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری کے باعث جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے اسی لئے رزعی اصلاحات لاکر ملک سے بھوک اور افلاس کا خاتمہ کیاجاسکتا ہے، دیگر مقررین نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ زرعی اصلاحات لاکر بڑھتی ہوئی خوراک کی کمی کوختم کیاجائے اور سندھ میں موثر زرعی پالیسی کے لئے قانون سازی کی جائے ۔

متعلقہ عنوان :