حکومت ِ سندھ گھر مزدوروں کو قانونی طور پرورکرز تسلیم کرتے ہوئے فی الفور پالیسی کا اعلان کرے،ہوم بیسڈ وومن ورکرزکنونشن میں مطالبہ

بدھ 21 جنوری 2015 23:01

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21جنوری2015ء) حکومت سندھ " ہوم بیسڈ پالیسی" کا جلد اعلان کرے اور اس کی روشنی میں قانون سازی کرکے سندھ میں موجود 50 لاکھ سے زائد گھر مزدوروں کے اوقات کار اور حالات کار میں بہتری لائے اورکم از کم اجرت کا تعین کرے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ہوم بیسڈوومن ورکرز فیڈریشن کراچی ڈویژن کے کنونشن میں کیا جس کی صدارت فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری زہرا خان نے کی۔

کنونشن کا انعقاد مزدور بستی گودھرا کالونی میں کیا گیاجس میں کراچی کے مختلف علاقوں سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہوم بیسڈ ورکرز نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ کنونشن میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مزدور نمائندہوں نے کہا کہ حکومت منظم شعبہ کی طرح گھر مزدوروں کو بھی آئی ایل او کے ہوم ورک کنونشن 177 کے مطابق ورکرز تسلیم کرے اور ان تمام مراعات تک رسائی آسان بنائی جائے جو کہ منظم شعبہ کے مزدوروں کو حاصل ہیں ۔

(جاری ہے)

پاکستان میں اس وقت ۱ کروڑ 26 لاکھ سے زائد ہوم بیسڈ ورکرز موجود ہیں جس میں خواتین مزدور کی تعداد 75% سے بھی تجاوز کر چکی ہے ، لیکن حکومت پاکستان پچھلے 18 برسوں سے آئی ایل او کے ہوم ورک کنونشن کی توثیق نہیں کر رہی اور اپنی مزدور دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہی حال ہوم بیسڈ ورکر کی پالیسی کا بھی جس پر پچھلے سال سے اب تک سندھ کابینہ کی طرف سے دستخط نہیں ہو سکے ہیں۔

اس سے سندھ اسمبلی کا مزدوروں کے حقوق کے لیے عدم دلچسپی کا اظہار ہو تا ہے۔ اس کنونشن میں کراچی کے مختلف مزدور بستوں سے آنے والی ہوم بیسڈ ورکرز نے بھی اپنے حالات کار اور زندگی کے تلخ تجربات سے آگاہ کیا۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری نا صر منصور نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ21 وی صدی میں بھی خواتین مزدور ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود تمام بنیادی حقوق اور سہولیات سے محروم ہیں۔

آج کے دور میں بھی یہ محنت کش خواتین اپنے پورے خاندان کے ساتھ 12 سے 16 گھنٹے کام کرنے کے باوجود ماہانہ پانچ ہزار روپے بھی اجرت کی مد میں حاصل نہیں کر پاتیں۔ بعض شعبوں میں کیمیکل کے استعمال سے نہایت خطرناک موزی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں حن کے علاج کے لئے کوئی سہولت موجود نہیں ۔ ہوم بیسڈ ورکرز کے مالکان کے اکثر اوقات پوشیدہ ہونے کی بنیادپر ٹھیکیدار، مڈل مین ان ورکرز کا بدترین استحصال کرتے ہیں جس کے خلاف فیڈریشن مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔

اس صورت حال کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سوشل سیکورٹی ، ورکرز ویلفیر فنڈ، ای او بی آئی کے تحت رجسٹر کیا جائے تاکہ وہ ان تمام بنیادی سہولیات سے مستفید ہو سکیں۔ ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی مرکزی راہنما سائرہ فیرور نے کہاکہ کروڑوں ہوم بیسڈ ورکرز آج بھی اپنی شناخت اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں ملک کے پیداواری عمل میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود لیبر قوانین انہیں ورکرز تسلیم نہیں کرتااور نہ ہی انہیں منظم شعبہ کے دیگر مزدوروں کی طرح مراعات حاصل ہیں ۔

مگر اس کے باوجود ہم پر عزم ہیں کہ ہم نے اپنی تنظیم سازی کا آغاز کیا اور آج ہمارے چار ہزار سے زائد ممبران سندھ میں موجود ہیں جو کہ اپنے حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اور اپنی شناخت کے حصول تک اپنی جدوجہدجاری رکھیں گے۔ ہوم بیسڈ وومن بینگل ورکرز یونین کی جنرل سیکرٹری جمیلہ عبد الطیف نے کہا کہ فیڈریشن کے قیام کے بعد ہم نے ہوم بیسڈ ورکرز کے مسائل کے حل کے سلسلے میں کافی پیشرفت کی ہے۔

حیدر آبا دمیں فیڈریشن کے تعاون سے لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے دس ہزار گھر مزدوروں کا سروے کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے کہ ان مزدوروں کو ان کی پہچان مل رہی ہے ۔ یہ سروے اپنے تکمیل کے مرحلے میں ہے جس کے بعد انہیں لیبر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کارڈ بھی دئیے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے ڈاکٹر بھی رکھیں جائیں گے ۔ پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے نائب صدر رفیق بلوچ نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیداواری عمل میں غیر منظم شعبہ کا حصہ 70% سے زائد ہو چکا ہے اور سرمایہ داری نظام غیر منظم شعبے میں موجود کروڑوں محنت کش عورتوں کی سستی لیبر کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا منافع کمانے کے باوجود انہیں بنیادی حقوق دینے سے انکاری ہے۔

اس کی ایک مثال آئی ایل او ہوم ورک کنونشن C177 ہے جس کی اب تک صرف 9 ملکوں نے توثیق کی ہے جب کہ ساوتھ ایشیا کے ممالک میں پانچ کروڑ سے زائد گھر مزدور مختلف شعبوں میں کام کر رہیں ہیں لیکن کسی بھی ملک نے اب تک اس کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے جو کہ ایک مایوس کن عمل ہے۔دیگر مقررین نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ فی الفور ہوم بیسڈ ورکرز سے متعلق پالیسی کا اعلان کریں جس کا مشترکہ مسودہ اگست 2013 سے ان کے آفس میں موجود ہے۔

کنونشن میں مطالبہ کیا گیا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کو سماجی تحفظ کے ادارے سے رجسٹرڈ کرنے کے عمل کو قانونی شکل دینے کے لیے اسمبلی میں بل پاس کیا جائے۔ کنونشن سے خطاب کرنے والوں میں ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن مرکزی رہنما سائرہ فیروز، شکیلہ خان کے علاوہ گھر مزدور رہنما زاہدہ مختیار، صوبیہ عثمان، شمیم بانو، جمیلہ محمد حفیظ ، شبنم اعظم اور ثمینہ اور دیگر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

متعلقہ عنوان :