بھارت اور پاکستان ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن کا شکار ہیں

ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی قسط پرجشن منایا جارہا ہے، مولانا فضل الرحمان کا ملین مارچ کا اعلان

muhammad ali محمد علی منگل 30 اپریل 2024 00:57

بھارت اور پاکستان ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ..
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 29 اپریل 2024ء) سربراہ جے یوآئی ف مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن کا شکار ہیں، ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی قسط پرجشن منایا جارہا ہے۔ پیر کے روز انہوں نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جلسہ کرنا پی ٹی آئی کا آئینی حق ہے، اسد عمر کا مطالبہ درست ہے، مسئلہ یہاں تک محدود نہیں کہ ہم جلسہ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اس بات کا سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ ملک آج کہاں کھڑا ہے،یہ عوام کی نمائندہ پارلیمان ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی ترتیب گئی پارلیمان ہے؟ ہم پارلیمان کی اس حیثیت کے سوال سے نکلیں گے یا مزید دھنستے چلے جائیں گے؟ ملک کے قائم ہونے میں بیورو کریسی اور اسٹیبشلمنٹ کا کوئی کردار نہیں،قائداعظم کا پاکستان کہاں ہے؟ قائد اعظم نے جو اتحاد تنظیم اور یقین محکم کا درس دیا وہ کہاں ہے؟ پاکستان کا فرد تین لاکھ کا مقروض ہے ہم نے قوم کو ہجوم بنا کر رکھ دیا، ذرا ہندوستان اور اپنا موازنہ تو کریں، دونوں ایک دن آزاد ہوئے آج وہ سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ہم دیوالیہ پن کا شکار ہیں، ہم دیوالیہ پن سے بچنے کیلئے بھیک مانگ رہے ہیں اور آئی ایم ایف کی قسط پرجشن منایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

تاریخ حقائق سے پردہ اٹھائے گی، تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی، ملک کو سنبھلنے ہی نہیں دیا جاتا اور مارشل لاء لگتے رہے، اسٹیبلشمنٹ ہمیں جو نتائج مرتب کرکے دے اور یہاں بیٹھنے کی فہرست دے کب تک سمجھوتہ کرتے رہیں گے؟کب تک ان کے دروازوں پر بیٹھ کر بھیک مانگتے رہیں گے، ہم سب کو 2018 کے الیکشن پر بھی اعتراض تھا، اس بار بھی مینڈیٹ ویسا ہی ہے، لیکن اگر اس وقت دھاندلی تھی تو آج دھاندلی کیوں نہیں ہے؟ خدا کرے خبر غلط ہو، ہماری معلومات ہیں کہ اس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئی ہیں، کون ان اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کو عوامی نمائندہ پارلیمان کہے گا؟یہاں بیٹھ کر کس طرح ضمیر مطمئن ہے؟ جیتنے اور ہارنے والے دونوں پریشان ہیں، حکومت میں بیٹھی جماعتوں کے اندر سینئر لوگ مجبور ہیں اور اپنے مینڈیٹ کو مسترد کررہے ہیں اور اعتراضات اٹھا رہے ہیں، صرف اپوزیشن کی بات نہیں ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔

ہم خاموش اس لئے کہ ہم نے اصولوں پر سمجھوتہ کیا، جمہوریت بیچی، اپنے ہاتھوں سے آقا بنائے ہیں۔ پوری ن لیگ گواہ ہے ایک اجلاس میں ایک قانون سازی پر بات کی اور کمیٹی بھی بنی ، لیکن بل پاس نہیں ہوسکا، ہم یہاں قانون سازی بھی نہیں کرسکتے۔