زراعت توسیعی کے ترجمان کے زیر اہتمام سہ روزہ تربیتی ورکشاپ

جمعہ 10 اپریل 2015 22:46

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10 اپریل۔2015ء ) زراعت توسیعی کے ترجمان کے زیر اہتمام سہ روزہ تربیتی ورکشاپ بعنوان "کم پانی پر اگنے والی فصلات، قطراتی طرز آبپاشی اور ماحولیاتی تبدیلی" کی اختتامی تقریب منعقد ہوئی جس سے ڈائریکٹر جنرل زراعت توسیعی یارمحمدپندرانی، ڈویژنل ڈائریکٹر کوئٹہ ڈویژن وزیرخان صافی، ڈائریکٹر ان سروس اکیڈمی ڈاکٹر امان اللہ سالار زئی نے خطاب کیا۔

ڈائریکٹر جنرل زراعت توسیعی یارمحمد پندرانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان سروس اکیڈمی کو فعال بنانے کے لئے بھرپور کوشش کریں گے تاکہ ادارے کے ذریعہ محکمہ زراعت کے ملازمین کی تربیت کی جائے۔ اس وقت ہمیں سب سے زیادہ مشکلات وسائل کی کمی کی وجہ سے ہیں ۔ انہوں نے اکیڈمی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ محدود وسائل میں بہترین کارکردگی دکھا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ اس طرح کی تربیتی ورکشاپ کی بڑی اہمیت ہے۔

(جاری ہے)

سہ روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتام پر ڈائریکٹر ان سروس ڈاکٹر امان اللہ سالارزئی نے کہا کہ تبدیلی نظام قدرت کا حصہ ہے، زمینی تغیرات سے زلزلے اور سیلاب آتے ہین۔ جغرافیہ بدل جاتا ہے، آب وہوا بدل جاتی ہے۔ کرہ ء ارض پر موسمی تبدیلی کی وجہ سے مختلف قسم کی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ ان تبدیلیوں میں کرہء ارض کا درجہ حرارت کا بڑھنا، سطح سمندر کا بلند ہونا، فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کا بڑھنا، ہوا میں نمی کی کمی، بارشوں میں کمی یا زیادتی، یا بارشوں کا نہ ہونا، موسمی تبدیلی کا قدرتی وسائل پر براہ راست اثرانداز ہونا جس میں پانی، زمین، زمینی حیات، زراعت وغیرہ شامل ہے۔

انسانی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہ کہ موسمی تبدیلی کی وجہ سے خشک سالی اور سیلاب اور اسی طرح شدید خشک سالی کی وجہ سے قحط جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں جو انسانی زندگی کو غضب ناک تباہی سے دوچار کرتی ہے۔ صوبے میں 1997ء سے لے کر 2003ء تک رہنے والی تاریخ کی بدترین خشک سالی سے بلوچستان کو سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کے لئے تین عوامل کا موافق ہونا لازمی ہے جس میں زمین، آب وہوا، یعنی زمین، پانی اور موسمی تبدیلی ان تینوں عوامل کو مدنظر رکھ کر زراعت کو ترقی دی جاتی ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس علاقے کی آبیات اور حیاتیاتی زمین کی ساخت کیسی ہے اور زمین میں اس کی ساخت کے مطابق کون کون سے پودے لگائے جاسکتے ہیں، زمین کے اندر پانی کی کی صورتحال کیا ہے، کتنی بارشیں ہوتی ہیں، علاقہ سطح سمندر سے کتنا بلندہے۔

یہ تمام عوامل زراعت پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان مین نہ ہم زمین کا خیال رکھتے ہیں ، نہ آب وہوا کا، ہم نے اپنی زراعت کو بلوچستان کے قدرتی ماحول کے برعکس یعنی بلوچستان آئیکالوجی، بلوچستان ہائیڈرولوجی کے مطابق ترقی نہیں دی۔ ان تمام عوامل کو یکسر نظرانداز کیا جو زراعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اگر ہم بلوچستان ایگریکلچر پر ایک ماہرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں مسائل کے انبار نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر وہ علاقے جن میں چاول کاشت کی جاتی ہے یعنی نصیرآباد، جعفرآباد وہ چاول کی کاشت کے لئے موزوں ہی نہیں ہیں کیونکہ ان علاقوں کی زمین کی ساخت چاول اگانے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ ورکشاپ سے ڈائریکٹر کوئٹہ ڈویژن وزیرخان صافی، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت اکرام اللہ شاہوانی نے بھی خطاب کیا۔ اختتام پر تما شرکاء میں محکمہ کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل زراعت توسیعی یارمحمد پندرانی نے اسناد تقسیم کئے۔