حکمرانوں کی سیاسی حیثیت محدود ہو کر رہ گئی ہے ،بلوچستان نیشنل پارٹی

منگل 7 جولائی 2015 22:56

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 07 جولائی۔2015ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے گوادر ، پسنی سمیت ساحل بلوچ کے غیور بلوچوں کی زمینوں پر غیر قانونی طریقے سے مقامی زمینداروں ، بلوچ فرزندوں کو بے دخل کرنے اور سیٹلمنٹ کی آڑ میں انہیں سرکاری گرداننے کے خلاف جب پارٹی نے جمہوری طریقے سے گوادر سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں سراحتجاج ہیں تو نیشنل پارٹی کا سیخ پاہ ہونا اس بات کی غمازی ہے کہ ان کو اپنی سیاسی اور اخلاقی شکست واضح دکھائی دے رہے ہیں انہیں اب احساس بھی ہو رہا ہے کہ بلوچستان میں ان کی سیاسی حیثیت کس حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے مگران میں ڈرگ مافیا کے ساتھ وہ کون سی پارٹی ہے جو ڈرگ مافیا کے لوگوں کو اقتدار تک رسائی دلاتی رہی ہے پارٹی بغیر کسی مصلحت پسندی کے بلوچستان میں بلوچوں کے اجتماعی ، قومی مفادات کیلئے ہمہ وقت جدوجہد کرتی رہی ہے پارٹی قیادت کے کردار ، عمل سیاست سے بلوچستان کے عوام بخوبی آگاہی رکھتے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ بحر بلوچ سرزمین پر آباد غیور بلوچ زمینداران ، ماہی گیروں کے حقوق اور انہیں اپنے جدی ، پشتی زمینوں سے بے دخل کرنے کے حوالے سے حکمرانوں کے عزائم اور گھناؤنی سازش کے ابتداء میں ہی بوکھلاہٹ سے خود یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ ان کی پالیسی بلوچ دشمنی پر مبنی ہے انہوں نے ابتداء ہی میں گوادر کے غیور بلوچوں کو نوٹس تک جاری کئے بیورو کریسی اور پٹواری مافیا اور ان کی ملی بھگت پر غیور بلوچوں نے جب تشویش کا اظہار کیا اور پارٹی نے حقائق سامنے لانے کی کوشش کی تو مثبت تعمیری تنقید پر اتنا جذبات ہونا اس بات کی غمازی ہے کہ ضرور کچھ ہونے کو جا رہا ہے کہ انہوں نے اتنی ناراضگی کا اظہار کیا بیان میں کہا گیا ہے کہ لینڈ مافیا ہو یا گوادر کی ڈرگ مافیا سے کن کا تعلق ہے گوادر کے غیور بلوچ عوام بخوبی جانتے ہیں کس پارٹی سے ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کے تعلق ہے اکیسویں صدی میں لفظی اور غیر منطقی اور حقیقت کے برعکس اور حقائق کو مسخ کر کے باتوں سے معاملات کی درستگی خام خیالی ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ممکن نہیں جہاں تک لینڈ مافیا کا تعلق ہے تو ان کی جماعت کے وزیراعلی نے 6جون2013ء کو اپنی سنگار ہاؤسنگ سکیم میں پلاٹس کو لاہور کے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ناموں پر ٹرانسفر کرایا جس کے تحریری ثبوت بھی ہیں جس سے خود ثابت ہوتا ہے کہ آمر یا پیپلز پارٹی کے نام نہاد جمہوری دور میں بھی ان کی تگ و دود سیاست کا محور زمینوں پر قبضہ گیری ، پلاٹس کے حصول اور گروہی اور انفرادی مفادات کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر گوادر کے بلوچوں کی زمینوں پر قبضہ گیری کے خلاف پارٹی نے عملی طور پر آواز بلند کی تو اس مثبت عمل کو لینڈ مافیا سے نتئی کر کے حکمران جماعت اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی پارٹی اس پر خاموش رہے گی گوادر کے غیور زمینداروں ، بلوچ فرزندوں کی ہزاروں سالوں پر محیط آباؤ اجداد کی جدی پشتی زمینوں کو سیٹلمنٹ کی آڑ میں غیر بلوچوں اور پارٹی قیادت ، سیاسی جیالوں اور دیگر صوبوں کے لوگوں کیلئے سرکاری ظاہر کر کے الاٹ کرنے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی اس کیلئے عملی اور ہر فورم پر آواز بلند کریں گے یہاں تک کے عوامی سیاسی جمہوری قانونی جدوجہد کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں لیکن بلوچوں کو اپنے ہی سرزمین سے بے دخل ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی جعلی حکمرانوں کو یہ اختیار ہے کہ وہ بلوچوں کی زمینوں پر قبضہ گیری کی پالیسی روا رکھیں اسی طرح کوئٹہ میں بھی موضع خشکابہ کاریزات میں بھی جعلی بندوبست کے ذریعے مقامی قبائل ، زمینداروں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی سازشیں شروع ہو چکی ہیں محکمہ بورڈ آف ریونیو کی طرف سے نوٹیکیفشن نمبر53ایل ایس سیٹلمنٹ 2014ء مورخہ15.12.214ء کو لیٹر جاری کیا گیا جو قانونی تقاضوں کو پورا نہ کرتا جو درج ذیل علاقوں کے حوالے سے ہے پٹوار سرکل نمبر2موضع ہنہ پٹوار سرکل کچلاک موضع سملی پٹواری سرکار کیچی بیگ خشکابہ کاریزات سریاب اور اسی طرح غیر مبہمم اور قانونی تقاضوں کو پورا کئے بغیر اس نوٹیفکیشن کی بنیاد پر پانچ ماہ بعد سیٹلمنٹ آفیسر کلکٹر کوئٹہ رینج کوئٹہ نے ایک اشتہار مقامی اخبار میں 19مئی 2015ء کو جاری کیا اب تقریبا سیٹلمنٹ کا تمام کام تکمیل کوپہنچ چکا ہے خشکابہ کاریزات کے زمینداروں اور مقامی بلوچوں کو علم نہیں کہ سیٹلمنٹ کا کام کتنے خفیہ طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے سیٹلمنٹ کا جو اسٹاف ان علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے ان علاقوں کے حوالے سے کوئی معلومات تک نہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک سازش کے تحت مقامی زمینداروں کے تمام اراضیات موجودہ حکمران جعلی طریقے سے افغان مہاجرین کے نام منتقل کئے جا رہے ہیں جو حکمرانوں اور بیورو کریسی کی ملی بھگت سے مقامی قبائل کے اراضیات پر قبضہ کرنے کی کوششیں باعث مذمت ہیں بیان میں کہا گیا ہے کہ موضع خشکابہ کاریزات میں جو بڑی وسیع پیمانے بندوبست کی آڑ میں قبضہ گیری کی پالیسی روا رکھی جا رہی ہے یہ تمام کارروائیاں جعلی حکمران اور بیورو کریسی کی ملی بھگت سے دفتروں ، پٹوار خانوں کی سطح پر سیٹلمنٹ اور بندوبست کی آڑ میں گوادر کی طرح کوئٹہ کے بھی ان علاقوں میں بھی قبضہ گیری کی پالیسی جاری ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ درج بالا جو نوٹیفکیشن ، ٹرانسفر ، پلاٹس کا ذکر کیا گیا ہے اس کے تمام شواہد ، ثبوت پارٹی کے پاس موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لینڈ مافیا یا اس ذہن کی سوچ رکھنے والی موجود حکومت ہے جس کے دور میں کرپشن ، اقرباء پروری ، زمینداروں کو ہتھیانے کا سلسلہ جاری ہے جو خود یہ بات واضح کرتی ہے کہ ان حکمرانوں کی سرگرمیوں سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ انہی کا تعلق لینڈ مافیا سے ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ ترجمان نے اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ساحل بلوچستان کا تحفظ ان کا بنیادی نقطہ ہے کیا یہ اسی طرح ان کا بنیادی نقطہ تو ثابت نہیں ہو گا جس طرح 2013ء کے الیکشن کے دوران جب یہ دعوی کرتے تھے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے سے روکنے اور بلوچستان میں انسانی حقوق ظلم و جبر کا سلسلہ بند کرنے بلوچستان میں آپریشن کے خاتمے اور بلوچ روایات کی پاسداری کا راگ الاپ رہے تھے اور بلوچستان کے بلوچ قومی مفادات ، لفظی حوالے سے متوسط طبقہ ، بلوچستان کی ترقی و تعمیر اور خوشحالی کے بلند دعوے اور افغان مہاجرین کے انخلاء کی باتیں کرتے ہیں کیا اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بولے؟ بلوچستان کے غیور بلوچ اس بات کا خود بخوبی فیصلہ کر سکتے ہیں سورج کو انگلی سے چھپانا ممکن نہیں سچائی اور حقیقیت پر مبنی حقائق کو چھپانا ممکن نہیں بیان میں کہا گیا کہ آیا بلوچستان میں ایک فرد بازیاب ہوا آپریشن میں کمی آنے کے بجائے تیز نہیں ہوا مسخ شدہ لاشیں تھمنے کی بجائے کس حد تک تیزی آئی کیا بلوچ علاقوں میں بلوچ روایات اور بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اقدامات میں تیزی نہیں لائی گئی بلوچستان کے کس علاقے میں بلوچ چادر و چار دیواری کی پامالی نہیں کی گئی اسی طرح دو سالوں میں بلوچستان کی پی ایس ڈی پی خود اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچ علاقوں میں کس حد تک ترقی و خوشحالی کو ممکن بنایا بیان میں کہا گیا کہ مرکزی حکومت سمیت صوبائی حکومت نے افغان مہاجرین کے انخلاء کے حوالے سے پالیسی ترتیب دیدی ہے لیکن موصوف کی جماعت نے اتحادی جماعت کے خوف سے اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا کہ افغان مہاجرین کے انخلاء کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہے کیا یہ قوم پرستی کا ثبوت ہے اسی طرح بلوچ نوجوانوں پر علم و آگاہی کے دروازے بند کرنے ، اساتذہ اور لیکچرارز کے پوسٹوں کو بیک جنبش قلم مسنوخ کرنا کیا یہ تعلیمی انقلاب کی نوید ہے بلوچستان میں یو ایس ایڈ بلوچ علاقوں کیلئے تعلیمی پروجیکٹ کو اتحادیوں کے خوف سے ختم کرنا اور تمام جامعات میں لسانی بنیادوں پر بلوچوں کو دیوار سے لگا کر غیر بلوچوں کو تعینات کرنا کیا یہ بلوچ قوم کی خدمت ہے زرعی یونیورسٹی کو ہزار گنجی سے نوحصار منتقل کرنا کیا بلوچوں اور پشتونوں کو دست و گریبان کرنے کی سازش نہیں اسی طرح نگران وزیراعظم کی جانب سے نصیر آباد میں ورکرز ویلفیئر بورڈ کی جانب سے بنائی جانی والی یونیورسٹی کو نصیر آباد سے پشین منتقل کرنا کیا محکوم عوام کو دست و گریبان کرنے کی سازش نہیں آواران کے زلزلہ متایرین سالوں گزرنے کے باوجود حکومتی امداد اور دوبارہ آباد کاری کے منتظر ہیں اسی طرح شاہ نورانی ، سارونہ اور وڈھ کے غیور بلوچ آج بھی سیلابی ریلے متاثر ہیں حکمرانوں نے اخباری بیانات تک ہی ان کی مدد کی کرپشن ، اقرباء پروری موجودہ حکومت کا مقاصد میں اولیت حاصل کر چکا ہے بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ہمیں ضرور احساس ہے کہ حکمران جماعت جملہ بالا مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور انہیں بھی پریشانی لاحق ہے کہ اقتدار اعلی کے دن بھی کم ہوتے جا رہے ہیں ان کی ناکامی کی بعض گشت اب اسلام آباد سے بھی سنائی دے رہی ہے ان حالات میں ضرور ذہنی پریشانی ایک فطری عمل ہے ہم ان کے مسائل کو سمجھ سکتے ہیں لیکن تمام حقائق بلوچستان کے باشعور عوام کے سامنے ہیں عوام خود ہی اپنی عدالت میں ان کا فیصلہ کرنے کا شعور رکھتے ہیں �

(جاری ہے)

متعلقہ عنوان :