کپاس کی پیداوارمیں 30فیصد کمی کے باعث پولٹری ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری کا درجہ اختیار کر گئی

منگل 15 دسمبر 2015 15:11

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔15دسمبر۔2015ء) کپاس کی پیداوارمیں 30فیصد کمی کے باعث پولٹری ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ماہرین کو ایک دوسرے کی پیشہ وارانہ کاوشوں میں حصہ دار بن کر 700ارب روپے کے اس حساس کاروبار میں بیماریوں پر قابو پاتے ہوئے اسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ہرچند پولٹری انڈسٹری میں دنیا کی 7ویں پوزیشن کے ساتھ پاکستان میں پولٹری کاشعبہ 20کروڑ آبادی کی نیوٹریشن اور پروٹین ضروریات انتہائی سستے داموں پوری کر رہا ہے تاہم کنٹرولڈشیڈز میں بیماریوں کے محدود حملہ کی وجہ سے اس میں غیرمعمولی بڑھوتری کا امکان ہے ۔ آن لائن کے مطابق کے ان خیالات کا اظہار زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں نے شعبہ پتھالوجی اور ورلڈ ویٹرنری پولٹری ایسوسی ایشن پاکستان برانچ کے اشتراک سے پولٹری بیماریوں پر انٹرنیشنل سیمینار کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہاکہ فرانس و یورپ میں پولٹری کے جینیاتی سٹاک میں بیشتر حصہ برصغیرکی دیسی مرغیوں پر مشتمل ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے جینیاتی سرمایہ کومحفوظ کرنا چاہئے ۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے ماہرین پر زور دیا کہ پولٹری کیلئے درآمدی ویکسین پر انحصار کم کرنے کیلئے مقامی سطح پرموثرپولٹری ویکسین کومارکیٹ میں لایا جانا چاہئے تاکہ اس کے درآمدی حجم میں کمی لائی جا سکے۔ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنس لاہور کے سابق وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر طلعت نصیر پاشا نے کہا کہ ہرچند ملک کا زرعی شعبہ چیلنجز کا شکار ہے تاہم ملکی و بین الاقوامی سطح پر مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات اس شعبہ میں مزید سرمایہ کاری اور ویلیوایڈیشن کودعوت دے رہی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پولٹری کا شعبہ 10فیصد کی غیرمعمولی شرح ترقی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اگر اس میں بیماریوں پر قابو پاتے ہوئے بین الاقوامی مارکیٹ کیلئے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے تو ملکی سطح پر فوڈ سیکورٹی کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقعوں اور دیہی ترقی بھی وقوع پذیر ہوگی۔ پاکستان ویٹرنری پولٹری ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر حنیف نذیر چوہدری نے کہاکہ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کے کوالٹی پیرامیٹرز پر عملدرآمد یقینی بناکر پاکستان کے پولٹری سیکٹر کوبھی دنیا کا متحرک اور آگے بڑھتا ہوا شعبہ بنایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان میں 80فیصد پولٹری بزنس ویٹرنری پروفیشنلز کے پاس ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں دوسرے شعبوں کی نسبت خاطر خواہ ترقی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی پولٹری مارکیٹ کا حصہ بننے کیلئے ہمیں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ زکی پابندی اور بیماریوں سے پاک برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔افتتاحی سیشن سے فوکل پرسن چیئرمین پتھالوجی پروفیسرڈاکٹر احرار احمد خاں ‘ڈین کلیہ ویٹرنری سائنس پروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا اور سیکرٹری آرگنائزنگ کمیٹی ڈاکٹر کاشف سلیمی نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار میں چین‘ جرمنی‘ برازیل‘ امریکہ‘ فرانس‘ مصراور اردن کے پولٹری سائنس دان شرکت کر رہے ہیں۔