پانامہ لیکس تحقیقات، ٹی او آرز بنانیوالی پارلیمانی کمیٹی کا 4 نکاتی ابتدائیے پر اتفاق

جمعرات 26 مئی 2016 16:30

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 مئی۔2016ء) پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز بنانے والی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اہم پیش رفت‘ 4 نکاتی ابتدائیے پر اتفاق کرلیا گیا ‘ اپوزیشن پندرہ میں سے دو نکات سے پیچھے ہٹ گئی‘ ٹی او آرز کا شق وار جائزہ لینے کے لئے کل جمعہ کو پھر اجلاس ہوگا‘کمیٹی میں شامل اپوزیشن رہنماؤں نے کہا ہے کہ وزیراعظم کا نام نکالنے پر رضامند ہیں لیکن خاندان کا احتساب ہونا چاہئے‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے حکومت کے ٹی او آرز مسترد کردیئے اب ان پر بات نہیں ہوگی‘ قوم کو مایوس نہیں کریں گے‘ پندرہ میں سے تیرہ نکات بہت اہم ہیں‘ وزیراعظم یہاں جلسے اور لندن میں شاپنگ کرتے ہیں‘ پانامہ پیپرز میں جن جن کا نام آیا سب کا احتساب ہونا چاہئے‘ حکومت نے کمیٹی سے اضافی ممبرز نکالنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے‘ ٹی او آرز کمیٹی میں شامل حکومتی اراکین نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے پندرہ میں سے دو نکات واپس لے لئے ہیں‘ چار نکاتی ابتدائیے پر اتفاق ہوچکا ہے‘ کمیشن کے ٹی او آرز اتفاق رائے سے بنائے جائیں گے‘ سپریم کورٹ نے حکومت کے ٹی او آرز مسترد نہیں کئے‘ جس کی بھی آف شور کمپنیاں ہوں گی نام آئے گا‘ جو بھی قانون توڑنے میں شامل ہوگا اس کی پکڑ ہونی چاہئے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو پارلیمنٹ ہاوٴس میں ٹی او آرز بنانے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومت کی طرف سے اسحاق ڈار، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، انوشہ رحمان، اکرم درانی اور میر حاصل بزنجو جب کہ اپوزیشن کی طرف سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن، شاہ محمود قریشی، صاحبزادہ طارق اللہ، طارق بشیر چیمہ، الیاس بلور اور بیرسٹر سیف نے شرکت کی۔

ابتدا میں اسپیکر سردار ایاز صادق بھی موجود تھے تاہم باقاعدہ کارروائی شروع ہونے پر وہ باہر چلے گئے۔ اجلاس کے باقاعدہ آغاز پر اپوزیشن نے حکومتی ٹی اورز پر اعتراض کردیا، ان کا موقف تھا کہ جو ٹی او آر چیف جسٹس آف پاکستان مسترد کرچکے ہیں، ان پر غور نہیں ہوسکتا۔ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے اضافی ممبر پر بھی اعتراض کیا گیا جس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیر قانون پارلیمانی کمیٹی میں بطور ایکس آف شو ممبر شامل ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کو ساتویں رکن پر اعتراض ہے تو معاملے کو دیکھ لیں گے۔ ایکس آف شو ممبر کمیٹی میں ووٹ نہیں دے سکتے جس پر اپوزیشن جماعتوں نے اضافی ممبر کو نکالنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کی کمیٹی میں ضرورت نہیں۔ ہمیں اراکین کی تعداد پر اعتراض ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایکس آف شو ممبر کی آڑ میں ساتویں رکن کی گنجائش نہیں۔ اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے حکومتی ٹی او آرز پر اعتراضات کردیا اور موقف اختیار کیا کہ جو ٹی او آر حکومت مسترد کرچکی ہے اس پر بحث نہیں ہوسکتی جس پر کمیٹی نے ٹی او آرز کا شق وار جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔

کمیٹی کا آئندہ اجلاس (آج) جمعہ کو دن گیارہ بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے پہلے اجلاس میں چار نکاتی ابتدایئے پر اتفاق ہوچکا ہے اجلاس میں تمہیدی معاملات پر اتفاق ہوا ہے۔ اپوزیشن نے پندرہ میں سے دو نکات واپس لے لئے ہیں۔ ٹی او آرز پر مزید مشاورت جاری ہے۔ جمعہ سے باقاعدہ مذاکرات شروع کریں گے۔

ابتدائی کام مکمل ہوچکا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ٹی او آرز جامع ہیں لیکن اپوزیشن کو ان پر اعتراض ہے مکمل اتفاق رائے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اجلاس کے دوران کمیٹی متفقہ طور پر 4 نکاتی ابتدایے پر متفق ہوگئی ہے، کمیٹی کا آئندہ اجلاس (آج) جمعہ کو ہوگا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے ٹی او آرز کا شق وار جائزہ لیا جائے گا۔ اجلاس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے کہا کہ اسحاق ڈار کی کچھ باتوں کے حوالے سے غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے ٹی او آرز کے ڈرافٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔

دوسرا مرحلہ جمعہ سے ہوگا کھلے دل اور ذہن کے ساتھ کمیٹی کی کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں چار نکاتی ابتدایئے پر اتفاق ہوا ہے ہمارے پندرہ میں سے تیرہ نکات بہت اہم ہیں۔ دو نکات اور سوالات واپس لے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے ٹی او آرز سپریم کورٹ مسترد کرچکی ہے اب ان پر بحث کی ضرورت نہیں۔ پانامہ لیکس پر جس جس کا بھی نام آیا ہے احتساب ہونا چاہئے چیف جسٹس نے درست کہا کہ حکومت کے ٹی آو آرز سے معاملہ بہت لمبا جائے گا۔

آج کے اجلاس میں جہاں حکومت سے اتفاق رائے ہوا ہے وہاں اختلاف رائے بھی موجود ہے۔ اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے خوشگوار ماحول رکھا گیا حکومتی ٹیم کو اپنے ٹی او آرز پر اصرار کرنا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ وزیراعظم کا نام نکالنے پر رضامند ہیں لیکن ان کے خاندان کا احتساب ہونا چاہئے۔ وزیراعظم یہاں جلسے اور لندن میں شاپنگ کرتے ہیں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہمارا موقف تسلیم کرلیا ہے اور کمیٹی سے اضافی حکومتی ممبر نکالنے پر رضامند ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم کی واپسی پر فیصلہ کیا جائے گا کہ کونسا ممبر نکالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا مقصد معاملے کو نیک نیتی سے آگے بڑھانا ہے ہمیں حکومتی ٹی او آرز پر اعتراضات تھے وہ پیش کئے حکومت کو بھی جن ٹی او آرز پر اعتراض ہیں وہ سامنے رکھیں ہم تحقیقات کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں ہمارے ہر نکتے اور سوال کے پیچھے کوئی نہ کوئی قانون شکنی ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن کوئی بھی بات چیت کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا دونوں کے پاس بات چیت کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے ہم کوشش کررہے ہیں کہ ٹی او آرز اتفاق رائے سے بنائیں اور امید ہے کہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک جتنا بھی کام ہوا ہے اچھے ماحول میں ہوا ہے حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے سے دلائل سے بات کی ہے۔

دونوں فریقین ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں نکتہ وہی مانا جائے گا جو قانون کے مطابق ہوگا دوسرے مرحلے میں اپوزیشن کے پندرہ ٹی او آرز کا جائزہ لیا جائے گا جو ماننے والے ہونگے ان کو مانیں گے جن میں اختلاف ہوگا ان میں مزید پوائنٹس شامل کریں گے۔ انہوں نے کہا بنیادی بات یہ ہے کہ قانون کی پاسداری ہونی چاہئے کسی نے قانون توڑا ہے تو اس کی پکڑ ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ پانامہ کمیٹی کے نوٹیفکیشن میں حکومت اور اپوزیشن کے چھ چھ ارکان ہیں اس کمیٹی کی تمام سفارشات وزارت قانون کے پاس جاتی ہیں اس لئے کمیٹی کے نوٹیفکیشن میں وزیر قانون زاہد حامد کا نام ایکس آفیشل کے طور پر ڈالا گیا۔ جس پر اپوزیشن نے اعتراض کیا۔ اس معاملے کو حل کرلیں گے۔ سعد رفیق نے کہا کہ حکومتی ٹی او آرز کو سپریم کورٹ نے مسترد نہیں کیا اور نہ ہی اس پر کوئی رولنگ یا فیصلہ دیا ہے صرف رائے دی گئی ہے۔

حکومت ٹی او آرز میں تبدیلی کیلئے پہلے بھی تیار تھی اب بھی تیار ہے جب آف شور کمپنیوں کی بات ہوگی تو سب کا نام آئے گا۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں یہ ہم آہنگی ہے کہ انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں اور خواجہ آصف کمیٹی کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے اس میں ہیں ہم کمیٹی میں پرفیوم کا کام کررہے ہیں۔ ابھی تک کمیٹی میں کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہمیں ابہام کی بجائے اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہ ے۔

متعلقہ عنوان :