زراعت پرسیاست کی بجائے سب ملکر اس کی بہتری کیلئے کردار ادا کریں ، کپاس کی فصل وزارت ٹیکسٹائل کے زیر نگرانی ہے ،اس کی وجہ سے نتائج آج پورا ملک بھگت رہا ہے، پلانٹ بریڈرز ایکٹ زراعت کے شعبہ کیلئے انقلاب ثابت ہو گا ،اسے جلد منظوری کے بعد لاگو کیا جائے گا پیداواری لاگت میں کمی سے کاشتکاروں کو نقصان ہو رہا ہے، حکومت نے پیداواری لاگت کم کرنے کیلئے کھاد کی قیمتوں میں کمی، زرعی ادویات میں زیرو ٹیکس، ٹریکٹرز پر ٹیکس میں کمی اور ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کی قیمت میں کمی سمیت خصوصی اقدامات کئے ہیں، صوبے زراعت کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے، ملک میں گندم، چاول اور گنا سمیت دیگر اجناس کے وافر ذخائر موجود ہیں، حکومت نے گندم درآمد نہیں کی، دودھ پر کسٹم ڈیوٹی سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہو گا

وزیر قومی تحفظ خوراک سکندر بوسن کا قومی اسمبلی میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے بجٹ پر کٹوتی کی تحریکوں پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب زراعت کوملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے، اس کو نظر انداز کرنامنفی ترقی ہے،کسان کی خوشحالی پر توجہ دینی چاہیے، سبسڈی کا زیادہ فائدہ کسانوں کو بہت کم ملتا ہے، زراعت پر زیروٹیکس ریٹ لاگو کیا جائے گا، جہانگیر ترین، نواب یوسف تالپور، سلمان بلوچ ،عبدالستار بچانی و دیگر کا کٹوتی کی تحریکوں پر بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 21 جون 2016 19:48

اسلا آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔21 جون ۔2016ء) وفاقی وزیر برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق سکندرحیات بوسن نے کہا کہ زراعت معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر کسی کو سیاست نہیں کرنی چاہیے اور مل کر اس کی بہتری کیلئے کردار ادا کرناچاہیے، کپاس کی فصل کو وزارت ٹیکسٹائل کے زیر نگرانی ہے اور اس کی وجہ سے نتائج آج پورا ملک بھگت رہا ہے، پلانٹ بریڈرز ایکٹ زراعت کے شعبہ کیلئے انقلاب ثابت ہو گا جوجلد منظور کرا کر لاگو کیا جائے گا، زراعت کے شعبہ میں پیداواری لاگت ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے کاشتکاروں کو نقصان ہو رہا ہے، حکومت نے پیداواری لاگت کو کم کرنے کیلئے کھاد کی قیمتوں میں کمی، زرعی ادویات میں زیرو ٹیکس، ٹریکٹرز پر ٹیکس میں کمی اور ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کی قیمت میں کمی سمیت خصوصی اقدامات کئے ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزارت کا 30.5 ارب کا بجٹ صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، صوبے زراعت کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے، ملک میں گندم، چاول اور گنا سمیت دیگر اجناس کے وافر ذخائر موجود ہیں، حکومت نے گندم درآمد نہیں کی، دودھ پر کسٹم ڈیوٹی میں مزید اضافے کے حق میں ہوں، اس کا چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہو گا۔

(جاری ہے)

وہ منگل کو قومی اسمبلی میں وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے بجٹ پر کٹوتی کی تحریکوں پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب کررہے تھے ۔ بحث میں جہانگیر ترین، نواب یوسف تالپور، سلمان بلوچ ،عبدالستار بچانی و دیگر نے حصہ لیا۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے نواب یوسف تالپور نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت زراعت کو حاصل ہے، اس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے منفی ترقی ہے،کسان کی خوشحالی پر توجہ دینی چاہیے، سبسڈی کا زیادہ فائدہ کسانوں کو بہت کم ملتا ہے، زراعت پر زیروٹیکس ریٹ لاگو کیا جائے گا، ٹریکٹرز پر تمام ٹیکس ختم کئے جائیں، اگر زراعت ترقی نہیں کرے گی تو ملک کی معیشت ترقی نہیں کرے گی، مرچ کی پیداوار زیادہ ہوئی ہے،اس کی ایکسپورٹ کی کوشش کی جائے اور پراسیسنگ پلانٹ ٹھیک کئے جائیں۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ کاٹن کی پیداوار کی پوزیشن بہت خراب ہے، وزارت ریسرچ کے نام پر کوئی کام نہیں کر رہی، بیج میں پچاس فیصد ملاوٹ ہے، پلانٹ بریڈرز ایکٹ جلدی پاس کرایا جائے، جب تک فوڈ سیکیورٹی ایسی ہو گی حالات میں بہتری نہیں ہو گی، چین اور بھارت میں کاٹن کی پیداوار کئی گنا زیادہ ہے، اگر پاکستان بیج ٹھیک کرے تو کاٹن کی پیداوار بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے، اس پر توجہ دی جائے، گلابی سنڈی جہاں فصل پر اثر انداز ہوتی ہے اس کو علیحدہ کر کے روکا جائے۔

سلمان بلوچ نے کہا کہ وزارت کی کارکردگی ناقص ہے، کرپشن کے اسکینڈل سامنے آئے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی، فشریز کی ایکسپورٹ اس وقت نہیں بین ہو چکی ہے، وزارت اس حوالے سے کام کرنے میں ناکام ہوئی ہے، ملک میں حلال گوشت کے بجائے گدھے، کتے اور حرام جانوروں کا گوشت عوام کو کھلایا جا رہا ہے۔ نذیر احمد نے کہا کہ وزارت نے فصلوں کے بیجوں کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں کیا، پرانا بیج استعمال کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر فوزیہ زراعت کے شعبہ کے لئے نا امیدی کی صورتحال ہے، حکومت کی کوئی توجہ نہیں ۔بم دھماکوں میں زمین زہریلی ہوئی، اس پر کوئی تحقیق نہیں کی گئی، غریبوں کو خوراک مل ہی نہیں رہی تو وزارت کیا فوڈ سیکیورٹی مہیا کررہی ہے۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ زراعت کو کامیاب کرنے کیلئے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی ضروریات میں پانی، روٹی اور زرخیز زمین کی ضرورت ہوتی ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ضرورت ہے اور مارکیٹنگ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، اگر زمیندار کو منافع نہیں ملے گا تو زراعت ترقی نہیں کر سکتی، مکئی کی چار فصلیں لے سکتے ہیں، پاکستان کے پاس کینال کا سب سے بڑا سسٹم ہے، آج گندم کا ریٹ 1300مقرر کرتی ہے کیا ممکن نہیں کہ 1300کسانوں کے گھر پہنچائیں، اجناس کی مقرر کردہ قیمت دیں، کسی طرح کی سبسڈی کی ضرورت نہیں پڑے گی، زمیندار کو جائز پیسے فصلوں کے ملنا اس کا حق ہے، ملک کی صنعتیں کپاس پر چلتی ہیں لیکن حکومت بتائے اس نے کپاس کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں، زمیندار کو سنبھالا ہے لیکن ٹیم نے توجہ نہیں دی، جب مسلم لیگ (ن) کی حکومتی آئی ہے تو زراعت پر بحران آتا ہے اور جب پیپلز پارٹی کی حکومت آتی ہے زراعت نے ترقی کی ہے، کسانوں کو اور زمینداروں کو مناسب قیمت ملتی تھی، کپاس کے تحقیقاتی اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے، نہ کوئی ورائٹی دیتی ہے نہ کوئی تحقیق ہے، تین سالوں میں 27ورائیٹیاں نکالیں جو ناقص ثابت ہوئیں، جب زمیندار کی سیکیورٹی نہیں ہے تو فوڈ سیکیورٹی کیس ہو گی، زراعت چمکے گی تو ملک کی معیشت چلے گی اور ملک ترقی کرے گا، حکومت کی توجہ شہروں پر ہے،تحقیقا میں باقی دنیا سے 40سال پیچھے ہیں، ہندوستان نے پیداوار چار گنا زیادہ بڑھا لی ہے لیکن ہمارے ملک میں آئندہ بھی اندھیرا نظر آ رہا ہے اور حکومت غیر سنجیدہ ہے، جو زمینداروں اور زراعت کے لئے مہنگا ثابت ہو رہا ہے اور کاشتکار کا چولہا بند ہو رہا ہے، پاکستان کی زراعت میں پانچ سال میں انقلاب لایا جا سکتا ہے، تحقیق کے اوپر پیسہ زیادہ خرچ کیا جائے، گنا کی فصل کا چالیس فیصد پانی کا استعمال کم کیا ہے، حکومت زراعت کی ترقی کیلئے اقدامات کرے، موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔

عبدالستار بچانی نے کہا کہ پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا پانچ واں ملک ہے لیکن بارہ ارب کا دودھ باہر سے منگواتے ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں دودھ ملک میں ڈمپ کر رہی ہیں، بھارت نے 65فیصد ڈیوٹی لگائی ہے ان کمپنیوں پر اور وزارت نے اس حوالے سے کوئی رپورٹ ہی پیش نہیں کی، وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی سکندر بوسن نے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس پر کوئی سیاست نہیں کرنی چاہیے اور متفقہ طور پر زراعت کی بہتری کیلئے کوشش کرنی چاہیے، وزیرخزانہ کا شکرگزار ہوں بجٹ میں زراعت کے لئے خصوصی اقدامات کئے ہیں، کپاس کی فصل وزارت ٹیکسٹائل کے ماتحت ہے اور ہماری حکومت سے قبل یہ کہا گیا ہے کہ اس کو سب بھگت رہے ہیں، بیچوں کی بہتری کیلئے کام نہیں کیا گیا، 2006 سے 2013 تک کوئی کام نہیں ہے، سیڈ ایکٹ کمپنی نے منظور کرلیا ہے، جلد پلانٹ بریڈر ایکٹ منظور کرلیا جائے گا، زراعت کے شعبے میں پیداواری لاگت کا زیادہ ہونا بہت بڑا مسئلہ ہے، اس سے کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے، حکومت نے پیداواری لاگت کو کم کرنے کیلئے کھادوں کی قیمت میں کمی کی گئی ہے، جی ایس ٹی 17فیصد سے کم کر کے 5فیصد کر دی گئی ہے، زراعت کی بہتری کیلئے صوبے کردار ادا نہیں کر رہے ہیں، صوبے کہتے ہیں کہ جی ایس ٹی کم ہو گا تو ہمیں نقصان ہو گا، زرعی ادویات پر ٹیکس مکمل ختم کر رہے ہیں، ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کی ہے، ٹریکٹروں کیلئے جی ایس ٹی میں پانچ فیصد مزید کم کر دیئے ہیں، فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے جتنی بھی فصلیں ہیں گندم اور چاولوں اور گنا کا سٹاک ہمارے پاس ایکسٹرا سٹاک میں موجود ہیں اور اجناس وافر مقدار میں موجود ہیں، جس پر کاشتکاروں اور کسانوں کا شکر گزار ہونا چاہیے، پلانٹ بریڈر ایکٹ سے زراعت میں انقلاب آئے گا، زراعت کی تحقیق کیلئے بلوچستان میں نئے ادارے بنا رہے ہیں اور سندھ میں بھی ایک ادارہ بنا رہے ہیں،سولر ٹیوب ویل کا منصوبہ سارے صوبوں میں لگایا جائے گا، اسی سال لگ جائے گا، زراعت کی بہتری صوبوں کی بھی ذمہ داری ہے جب تک صوبے کردار ادا نہیں کریں گے، زراعت بہتر نہیں ہو گی، وزارت کی ساڑھے 30.5 ارب کی رقم صوبوں کو منتقل ہو چکی ہے، صوبوں کو اب کردار ادا کرنا چاہیے، گندم حکومت پاکستان نے نہیں منگوائی تھی ، یہ پرائیویٹ سیکٹر نے درآمد کی تھی اور اس کی انکوائری کی جا رہی ہے، دودھ کے اوپر ڈیوٹی کی مخالفت جہانگیر ترین نے کی ہے، حیران کن ہے، اس سے زیادہ ڈیوٹی کے حق میں ہوں، اس کا فائدہ چھوٹے کاشتکاروں کو ہو گا، لائیو سٹاک کازراعت کے شعبہ میں بڑا حصہ ہے، وزارت کی کارکردگی بڑھانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں