چند مسلم ممالک کے لوگوں کا داخلہ محدود کرنا ضرروی ہے یہ پابندی مسلمانوں کے خلاف نہیں ،ڈونلڈ ٹرمپ

دنیا اس وقت بہت گھمبیر صورتحال اختیار کرچکی ہے، یہ پابندی مسلمانوں کے بجائے ان ممالک پر ہے جہاں دہشت گردی عروج پر ہے، تشدد پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ جب خفیہ ایجنسیوں کے افسران سے پوچھا کہ کیا تشدد کام کرتا ہے تو اس پر ان کا جواب تھا ہاں بالکل، آگ کا مقابلہ آگ سے ہی کیا جاسکتا ہے،داعش کے جنگجوؤں کے خلاف جنگ کا واحد مقصد امریکا کا تحفظ ہوگا، یورپ نے جرمنی سمیت دیگر ممالک میں ہزاروں افراد کو داخلے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انٹرویو

جمعرات 26 جنوری 2017 20:45

چند مسلم ممالک کے لوگوں کا داخلہ محدود کرنا ضرروی ہے یہ پابندی مسلمانوں ..

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 جنوری2017ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا میں چند مسلم ممالک کے لوگوں کا داخلہ محدود کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ دنیا اس وقت بہت گھمبیر صورتحال اختیار کرچکی ہے، تشدد پر یقین رکھتا ہوں کیونکہ جب خفیہ ایجنسیوں کے افسران سے پوچھا کہ کیا تشدد کام کرتا ہے تو اس پر ان کا جواب تھا ہاں بالکل، آگ کا مقابلہ آگ سے ہی کیا جاسکتا ہے،داعش کے جنگجوؤں کے خلاف جنگ کا واحد مقصد امریکا کا تحفظ ہوگا،یورپ نے جرمنی سمیت دیگر ممالک میں ہزاروں افراد کو داخلے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی۔

امریکی ٹی وی اے بی سی نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں نئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ چند مسلم ممالک کے لوگوں کا داخلہ محدود کرنا ضرروی ہے، یہ پابندی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی مسلمانوں کے بجائے ان ممالک پر ہے جہاں دہشت گردی عروج پر ہے‘۔ٹرمپ نے ممالک کا نام لینے سے گریز کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یورپ نے جرمنی سمیت دیگر ممالک میں ہزاروں افراد کو داخلے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی۔

امریکی میڈیا میں شائع ہونے والے ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے ڈرافٹ کے مطابق جنگ سے متاثرہ ملک شام کے مہاجرین اس پابندی میں ضرور شامل ہوں گے جبکہ امریکا کے پناہ گزینوں کے داخلے کا وسیع پروگرام 120 دن کے لیے معطل کردیا جائے گا اور دہشت گردی کا خطرے سمجھے جانے والے ممالک، جن میں عراق، شام، ایران، سوڈان، لیبیا، صومالیہ اور یمن شامل ہیں، پر 30 دن کے لیے پابندی لگادی جائے گی۔

ڈرافٹ کے مطابق ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ستمبر 2017 تک امریکا میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد کو آدھا کردیا جائے۔اس سے قبل سابق صدر اوباما کی انتظامیہ کا ٹارگٹ تھا کہ وہ اس سال 1 لاکھ پناہ گزینوں کی میزبانی کریں لیکن ٹرمپ انتظامیہ اس تعداد کو 50 ہزار تک لے آنا چاہتی ہے۔دوسری جانب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تشدد پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ جب انہوں نے خفیہ ایجنسیوں کے افسران سے پوچھا کہ کیا تشدد کام کرتا ہے تو اس پر ان کا جواب تھا ہاں، بالکل ۔

انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ داعش کے جنگجوؤں کے خلاف جنگ کا واحد مقصد امریکا کا تحفظ ہوگا۔دوران انٹرویو اس سوال پر کہ وہ واٹر بورڈنگ جیسی تکنیک پر کیا رائے رکھتے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مسیحی اور دیگر افراد کے خلاف دہشت گردوں کے مظالم سب کے سامنے ہیں آگ کا مقابلہ آگ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔تاہم اس بارے میں وہ اپنے نئی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائک پومپیو سے مشاورت کے بعد ہی نئی پالیسی تشکیل دیں گے۔