عزیربلوچ کو جاسوسی اور ملکی راز غیرملکی خفیہ اداروں کو فراہم کرنے پر پاک فوج نے تحویل میں لے لیا-پیپلزپارٹی کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے شہرت پانے والا گینگسٹر 2013 میں کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے آغاز کے بعد ایران فرار ہوگیا-چابہارمیں ایرانی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کے بارے میں حساس معلومات فراہم کیں

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 12 اپریل 2017 10:55

عزیربلوچ کو جاسوسی اور ملکی راز غیرملکی خفیہ اداروں کو فراہم کرنے پر ..
کراچی(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12اپریل۔2017ء) لیاری گینگ وار کے اہم کردار عزیر بلوچ کو پاک فوج نے غیر ملکی خفیہ اداروں کو ملکی راز فراہم کرنے کے الزام کے تحت اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے منگل اور بدھ کی درمیانی شب جاری کیئے گئے پیغام میں بتایا ہے کہ عزیر بلوچ کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی تحویل میں لیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ کے مطابق عزیر بلوچ پر ملک کی جاسوسی یعنی غیر ملکی خفیہ اداروں کو حساس حفاظتی معلومات کی فراہمی کا الزام ہے۔ترجمان کی جانب سے اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ پاکستان رینجرز سندھ نے جنوری 2016 میں کراچی کے علاقے لیاری میں گینگ وار کے مرکزی کردار عزیر بلوچ کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔

(جاری ہے)

عزیر بلوچ کے خلاف لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل اور اقدام قتل سمیت بھتہ خوری کے کئی مقدمات درج ہیں جن میں سے ایک مقدمے میں حال ہی میں انھیں بری بھی کیا گیا تھا۔

عزیر بلوچ 2013 میں کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے جس کے بعد سندھ حکومت نے کئی مرتبہ ان کے سر کی قیمت مقرر کی تھی۔عزیر بلوچ نے لیاری امن کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس کے بارے میں متحدہ قومی موومنٹ کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم بھتہ خوری سمیت کئی جرائیم میں ملوث ہے، جس کے بعد ایم کیو ایم ہی کے مطالبے پر پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت کے وزیرِ داخلہ نے لیاری امن کمیٹی پر پابندی عائد کر دی تھی۔

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ عزیر بلوچ ملک میں آرمی کی تنصیبات اور عہدیداران سے متعلق خفیہ معلومات ایران کے انٹیلی جنس افسران کو فراہم کرتا تھا، جو کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی خلاف ورزی ہے۔جس پر عزیز بلوچ سے متعلق تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے مبینہ طور پر ایرانی انٹیلی جنس ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے پر عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں جاسوسی کا مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی۔

رپورٹ میں عزیر بلوچ کے اقبالی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ لیاری کا یہ گینگسٹر 2013 میں کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے آغاز کے بعد ایران فرار ہوگیا تھا، جہاں وہ چابہار میں اپنے دوست مالک بلوچ کے ہمراہ رہتا تھا اور وہی اس کی ملاقات دوہری شہریت رکھنے والے حاجی ناصر سے ہوئی۔ناصر نے عزیر بلوچ کو مستقل طور پر تہران منتقل ہونے اور بغیر پیسے خرچ کیے ایرانی شہریت دلانے کی پیشکش کی، کیونکہ اس کے ایرانی انٹیلی جنس افسران سے اچھے تعلقات تھے اور وہ عزیر کی ان سے ملاقات کرا سکتا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے ناصر کی پیشکش پر رضا مندی ظاہر کی جس کے بعد اس کی ایرانی انٹیلی جنس کے ایک عہدیدار سے ملاقات کرائی گئی، جس نے عزیر کو شہریت دلانے کے بدلے کراچی کی سیکیورٹی صورتحال اور مسلح افواج کے عہدیداران سے متعلق مخصوص معلومات فراہم کرنے کو کہا۔ عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس کے 14 ساتھیوں میں سے 6 اب بھی چابہار میں ہیں۔

رپورٹ میں تحقیقاتی ٹیم کے اراکین کی جانب سے حکومت سے سفارش کی گئی تھی کہ عزیر بلوچ کے خلاف، جاسوسی میں ملوث ہونے پر پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ کئی پولیس و رینجرز اہلکاروں اور حریف ارشد پپو کے قتل میں بھی ملوث پایا گیا، جبکہ وہ بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، چائنہ کٹنگ اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ملوث رہا۔

عزیر بلوچ نے تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ اس نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے ارشد پپو، اس کے بھائی یاسر عرفات اور شیرا پٹھان کو اغوا کے بعد قتل کیا، جبکہ اس کارروائی میں انسپکٹر یوسف بلوچ، ایس ایچ او جاوید بلوچ اور انسپکٹر چاند خان نیازی نے اس کی مدد کی۔لیاری گینگسٹر نے ٹیم کو بتایا کہ مارچ 2013 میں اس کے ساتھی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے وابستہ شیر محمد شیخ عرف شیرو نے اسے بتایا کہ اس نے گینگ کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنے والے دو رینجرز اہلکاروں کو اغوا کیا، بعد ازاں عزیر بلوچ نے ایم کیو ایم پر الزام لگائے جانے کی نیت سے، شیرو کو دونوں اہلکاروں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔

گرفتاری کے بعد ابتدا میں عزیر بلوچ کو رینجرز نے 90 روز تک حراست میں رکھا اور تفتیش کے بعد پولیس کے حوالے کردیا تھا، ملزم کو بعد ازاں کراچی کی سینٹرل جیل میں قید رکھا گیا جہاں عزیز بلوچ کو متعدد ٹرائل کا سامنا تھا۔عزیر بلوچ پاکستان پیپلز پارٹی سے قریبی تعلقات کی وجہ سے معروف ہے، اس سے قبل اسے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے 40 مقدمات میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔

لیاری میں 2012 میں ہونے والے پولیس آپریشن کے دوران عزیر بلوچ اور اس کے دیگر ساتھیوں پر قتل، اقدام قتل اور پولیس حملوں سے متعلق 35 مقدمات درج کیے گئے تھے۔اس کے علاوہ وہ لیاری سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے ایک رکن قومی اسمبلی اور کچھ پولیس افسران کے ساتھ ارشد پپو، اس کے بھائی یاسر عرفات اور ساتھی جمعہ شیرا قتل کیس کے ٹرائل کا سامنا بھی کررہے ہیں، انھیں مارچ 2013 میں ڈیفنس سے اغوا کے بعد لیاری میں قتل کردیا گیا تھا۔

عزیر بلوچ نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عزیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔

ارشد پپو، عزیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان عرف رحمان ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عزیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر رحمان ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔ اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عزیر نے ابتدائی طور پر رحمان ڈکیت کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمٰن کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔

پولیس ان کاو¿نٹر میںرحمان ڈکیت کی موت کے بعد عزیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عزیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔ٹپی کے نام سے مشہور اویس مظفر لیاری سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن عزیر بلوچ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کردیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور نتیجتاً ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012 میں آپریشن شروع کردیا گیا جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا۔

ایک ہفتے یہ آپریشن ختم کردیا گیا اور پیپلز پارٹی کو عزیر کے مطالبات کے آگے سرخم تسلیم کرنا پڑا، عزیر نے مطالبہ کیا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں ان کے منتخب کردہ امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی۔ تاہم اگر لیاری میں ان کی موجودگی کی بات کی جائے تو ذرائع کے مطابق اندرونی طور پر مستقل جاری لڑائیوں کے باعث یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور پیپلز امن کمیٹی کا اب کوئی وجود نہیں۔عزیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے لیکن جو کارروائی انہیں انہیں منظر عام پر لے کر آئی وہ سپریم کورٹ کی جانب سے لیا گیا سوموٹو نوٹس تھا جو اعلیٰ عدلہ نے عذیر کے ارشد پپو قتل کیس میں ملوث ہونے پر لیا۔