پارلیمانی پارٹیوں کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں اپنی سفارشات پیش کرنا ہونگی ، ملک میں دہشت گردوں اور شدت پسندنظریات کے خلاف بیانیہ پیش کرنے کیلئے تمام متعلقہ شعبوں، سیاسی جماعتوں اور قائدین کو اتفاق رائے پید ا کرنا ہوگا ،کشمیر میں بھارتی بربریت کے خاتمے اور اس مسئلے کے حل تک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے،چیئر مین سینیٹ میاں رضاربانی کی میڈیا سے گفتگو

اتوار 14 مئی 2017 14:20

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 مئی2017ء) چیئر مین سینیٹ میاں رضاربانی کہا ہے کہ تمام پارلیمانی پارٹیوں کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں اپنی سفارشات پیش کرنا ہونگی ، ملک میں دہشت گردوں اور شدت پسندنظریات کے خلاف بیانیہ پیش کرنا کسی مدرسے کے دائر ہ کار میں نہیں آتا بلکہ تمام متعلقہ شعبوں ،سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کو اس سلسلے میں اتفاق رائے پید ا کرنا ہوگا ، اس حوالے سے پارلیمنٹ کی راہ اختیار کرنا ہوگی،کشمیر میں بھارتی بربریت کے خاتمے اور اس مسئلے کے حل تک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے ۔

ان خیالات کا ظہار انہوں نے کوئٹہ میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اور مستونگ خود کش حملے کے واقعہ کے دوران زخمی ہونے والے دیگر افراد کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے لوگوں سے متعلق مثبت رویہ اختیار کرنا ہوگا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں لسانی فسادات اور فرقہ واریت میں اضافہ ہوا جس کے محرک پرویز مشرف اور دیگر کے غلط اقدامات تھے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اس وقت یہ دہشت گردی اپنی بد ترین شکل میں ہمارے سامنے آر ہی ہے ۔میاں رضاربانی نے کہا کہ فوج اور سیاسی قائدین کو دہشت گردی کی نظریات اور جنگ کے حوالے سے متحد ہو کر کردار ادا کرنا ہوگا اور تمام سیاسی جماعتیں اس سلسلے میں پارلیمان کے ذریعے اقدامات تجویز کریں ، انہوں نے کہا کہ اپریشن ردالفساد کی کامیابی کیلئے تمام متعلقہ شعبوں کو ایک صفحہ پر آنا ہوگا ، اور ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے قومی یکجہتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی وضح کرنی ہوگی ۔

میاں رضاربانی نے کہا کہ کشمیر میں حالیہ بھارتی بربریت کے خاتمے اور اس مسئلے کے حل تک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے تاہم ایران ، افغانستان اور سارک کے دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کھولنے ہونگے تاکہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں دیرینہ امن کا قیام ممکن ہو ۔