عالمی عدالت نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی پر حکم امتناعی جاری کردیا-آرٹیکل1کے تحت عدالت کے پاس ویانا کنونشن کی تشریح میں تفریق پرفیصلہ دینے کااختیار ہے،دونوں ملکوں کے درمیان ویانا کنونشن کے تحت کونسلر رسائی پر اختلاف پایا جاتا ہے لہذاعالمی عدالت اس معاملے کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔عالمی عدالت انصاف کے جج رونی ابراہم کا فیصلہ-پاکستان کو عالمی عدالت انصاف میں پیش نہیں ہونا چاہیے تھا-ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 18 مئی 2017 16:57

عالمی عدالت نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی پر ..
ہیگ(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18مئی۔2017ء) عالمی عدالت کے جج رونی ابراہم نے کہا ہے کہ عالمی عدالت کے فیصلے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔انہوں نے پاکستان کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کر دیا اور کہا کہ عالمی عدالت اس معاملے کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل1کے تحت عدالت کے پاس ویانا کنونشن کی تشریح میں تفریق پرفیصلہ دینے کااختیار ہے،دونوں ملکوں کے درمیان ویانا کنونشن کے تحت کونسلر رسائی پر اختلاف پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کومطلع کرنے میں ناکامی ویانا کنونشن کے دائرے میں آتی ہے،ویانا کنونشن سے جاسوسی میں گرفتار افراد کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا،کلبھوشن یادیو کا معاملہ عالمی عدالت انصاف نے دائرہ کارمیں آتا ہے۔

(جاری ہے)

عالمی عدالت کے جج رونی ابراہم نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو تین مارچ 2016 سے پاکستان کی قید میں ہے۔پاکستان نے بتایا کہ اس نے یادو کا معاملہ بھارتی ہائی کمیشن کےساتھ اٹھایا۔

جج نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ جنوری 2017میں پاکستان نے بھارت سے تحقیقات میں معاونت کے لیے خط لکھا،پاکستان نے بھارت کوبتایا کہ قونصلررسائی کا فیصلہ پاکستانی خط کے جواب پرہوگا۔انہوں نے اپنے فیصلے کے دوران اس کیس سے متعلق مختلف دفعات کا خلاصہ بھی پیش کیا جس میں پاکستان اور بھارت کے سیاسی معاملات کے پس منظر کا تذکرہ تھا۔عالمی عدالت انصاف میں پاکستانی وکیل خاور قریشی نے نہ صرف پاکستانی موقف بھر پور انداز میں پیش کیا کرتے ہوئے عالمی عدالت میں ثبوت دکھائے بلکہ کلبھوشن کے کرتوت بتائے اوراس کے سہولت کاروں کے نام بتائے۔

بلکہ دنیا کے سامنے یہ بات بھی دہرائی کہ پاکستان نے بھارت سے جو معلومات مانگیں ،بھارت نے ان پر تعاون کرنے کے بجائے فرار اختیار کیا۔پاکستان نے بھارت کی پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی سے متعلق کل بھوشن کے انکشافات پر اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھائی۔اس متعلق ثبوت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے حوالے بھی کیے گئے۔

عالمی عدالت انصاف نے 15 مئی کو محفوظ کیا تھا۔اپنے دلائل کے دوران بھارتی وکلاءکی ٹیم کے سربراہ ہریش سالوے نے توجہ پاکستان کے کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کے انکار پر ہی مرکوز رکھی تھی۔ سالوے کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال انتہائی سنگین اور ہنگامی ہے، بھارت پاکستان کو مارچ 2016 سے اب تک متعدد مرتبہ کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دینے کی درخواست دے چکا ہے۔

پاکستانی وکلا کی ٹیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا اس لیے یہاں کیس نہیں چلایا جاسکتا۔عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی نمائندگی ڈائریکٹر جنرل (جنوبی ایشیا اور سارک) ڈاکٹر محمد فیصل کر رہے تھے، جن کے ساتھ پاکستانی وکلاءکی ٹیم موجود تھی۔ڈاکٹر فیصل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کو تمام متعلقہ قانونی کارروائی مکمل کیے جانے کے بعد سزائے موت سنائی گئی اور اسے خود پر لگائے گئے الزامات کے دفاع کے لیے وکیل بھی فراہم کیا گیا تھا۔عالمی عدالت انصاف نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی تھی۔خیال رہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے گذشتہ ماہ موت کی سزا سنائی تھی۔

دوسری جانب عالمی عدالت انصاف کی جانب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد روکے جانے کے حکم کے حوالے سے تجزیہ کاروں نے حیرانی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔فیصلے سے قبل پاکستانی تجزیہ کار پر اعتماد تھے کہ آئی سی جے کلبھوشن کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا اختیار نہیں رکھتا تاہم اب مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ دائرہ اختیار کے حوالے سے دیے جانے والے دلائل کمزور اور نقصان دہ تھے۔

جسٹس (ر) شائق عثمانی نے کہا کہ یہ فیصلہ حیران کن ہے کیوں کہ یہ آئی سی جے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے آئی سی جے میں پیش ہوکر غلطی کی جب تک آئی سی جے اپنا فیصلہ نہیں دیتی، یہ کیس پاکستان میں چلتا رہے گا البتہ کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جاسکتی کیوں کہ عدالت نے حکم امتناع دے دیا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کلبھوشن پر مقدمہ چلانے والے فیڈل جنرل کورٹ مارشل نے سزا کے خلاف اپیل کے لیے 40 روز کی مہلت دی تھی جو میرا خیال ہے کہ ختم ہونے والی ہے البتہ اگر عدالت چاہے تو اپیل کرنے کی مدت بڑھا سکتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا پاکستان کو آئی سی جے میں نہیں جانا چاہیے تھا ۔



متعلقہ عنوان :