حکومت میں شامل ”سیاسی انتہا پسند“وزیراعظم کو ڈٹ جانے کے مشورے دے رہے ہیں جس سے اداروں کے درمیان ٹکراﺅ کی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں-آئینی وقانونی ماہرین

وزیراعظم ہاﺅس میں جنرل مشرف کے سابق وزیروں اور مشیروں کا ٹولہ ہے جوکہ اس وقت نوازشریف کچن کیبنٹ کا اہم ترین حصہ ہیں جبکہ دوسرا دھڑا مسلم لیگ نون کے سنیئرراہنماﺅں پر مشتمل ہے جو وزیراعظم کی ہٹ دھرمی اور پارٹی کی سنیئرقیادت کو نظراندازکیئے جانے پر نالاں ہے-نون لیگ نے سیاسی حکمت عملی کے طور پر پاناما کیس کو میڈیا کے ذریعے ہوادی تاہم موجودہ صورتحال میں شریف خاندان کے لیے اس سے فوائدحاصل کرنا انتہائی دشوار نظرآتا ہے-پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹر میاں محمد ندیم کا جے آئی ٹی رپورٹ پر خصوصی تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 12 جولائی 2017 13:41

حکومت میں شامل ”سیاسی انتہا پسند“وزیراعظم کو ڈٹ جانے کے مشورے دے رہے ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-تجزیہ میاں محمد ندیم۔12 جولائی۔2017ء) حکومت میں شامل ”سیاسی انتہا پسند“وزیراعظم کو ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں جس سے اداروں کے درمیان ٹکراﺅ کی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں-آئینی وقانونی ماہرین کے مطابق اسلام آباد میں بیٹھے ”سیاسی انتہا پسند“وزراءاور مشیروں کی اکثریت سپریم کورٹ کے مئی کے فیصلے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مندرجات سے آگاہ نہیں اور نہ ہی انہوں نے دونوں اہم ترین دستاویزات کو پڑھا ہے-سپریم کورٹ کے دوسنیئرجج صاحبان پاناماکیس کی سماعت کے دوران ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے جس پر معززبنچ کے باقی تین اراکین جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد فیصلہ دینے جارہے ہیں-ماہرین کا کہنا ہے فیصلہ بہرصورت وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ہے کیونکہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ کے ساتھ ناقابل تردید ٹھوس ثبوت پیش کیئے ہیں جن سے منی لانڈرنگ‘غلط بیانی‘جھوٹے دستاویزات بنانے اور اعلی عدالت کے سامنے پیش کرنے‘اعلی عدالتوں کے سامنے جھوٹے بیان خلفی اور شہادتیں پیش کرنے‘ٹیکس چوری‘اختیارات کا ناجائزہ فائدہ اٹھانے اور سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل جیسے سنگین جرائم ثابت ہوتے ہیں جبکہ لندن فلیٹس کی منی ٹریل پر بھی شریف خاندان ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکامتحدہ عرب امارات حکومت کے خط سے قطری خطوط جھوٹے اور بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں -انتہائی معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ وزیراعظم نوازشریف اپنے علاوہ کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تو ان کے گرد جمع ”سیاسی انتہا پسند“جن میں سے بہت سارے اس امید پر بیٹھے تھے کہ شاید ان ہاﺅس تبدیلی کی صورت میں انہیں وزارت عظمی کے لیے نامزد کیا جائے مگر وزیراعظم نوازشریف کے رویے کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پلان بی پر کام شروع کردیا ہے کہ ٹکراﺅکی صورتحال پیدا کی جائے اور اس سے جو ”نتیجہ“برآمد ہو اس سے بھرپور سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے-یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی موجودہ کچن کابینہ میں اکثریت جنرل مشرف کے سابق وزیروں اور مشیروں کی ہے جو سیاسی حالات کے ساتھ پارٹیاں بدلنے کے میں ماہر ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے سنیئرراہنماءمایوس ہوکر بیٹھ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے پاناماکیس پرمئی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا-ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت مسلم لیگ نون میں دواہم دھڑے کام کررہے ہیں ایک وزیراعظم ہاﺅس میں جنرل مشرف کے سابق وزیروں اور مشیروں کا ٹولہ ہے جوکہ اس وقت نوازشریف کچن کیبنٹ کا اہم ترین حصہ ہیں جبکہ دوسرا دھڑا مسلم لیگ نون کے سنیئرراہنماﺅں پر مشتمل ہے جو وزیراعظم کی ہٹ دھرمی اور پارٹی کی سنیئرقیادت کو نظراندازکیئے جانے پر نالاں ہے-پارٹی کے اندر ”سیاسی انتہا پسند“کا یہ ٹولہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم صفدر کے ذریعے وزیراعظم پر اثراندازہورہا ہے جوکہ ڈیفیکٹو ڈپٹی وزیراعظم کے طورحکومتی معاملات میں مداخلت کرتی آرہی ہیں - جس روز سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے دو ججوں نے نواز شریف کی برطرفی کے حق میں اور تین ججوں نے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ دیا اس روز شریف خاندان کے ایک رکن نے کہا تھا”گولی کنپٹی چھوتی گزر گئی“ یہ جملہ شریف خاندان کے اندرونی معاملات کی عکاسی کرتا ہے کہ سب کچھ ویسا نہیں جیسا کہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

یہ جے آئی ٹی قطری شہزادے کی وجہ سے بھی یاد رکھی جائے گی۔ جن کے بھیجے دو خطوط کو بنیادی طور پر چال چلن کا سرٹیفکیٹ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں قطری شہزادے نے اپنے دوست کو گرداب سے نکالنے کے لیے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جس کی ایک وجہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کا وہ خط ہوسکتا ہے جسے حاصل کرنے میں جے آئی ٹی کامیاب ہوگئی-پاناما مقدمہ جہاں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے لیے کٹھن مرحلہ ہے وہیں پاکستان کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (نواز) کے لیے بھی سیاسی طور پر نہ صرف ایک بحران بلکہ چیلنج بھی ہے۔

نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر نے اپنی ایک حالیہ ٹویٹ میں لکھا کہ اگر آپ نے اسے ایک سیاسی جنگ بنا دیا ہے، تو مسلم لیگ (ن) سے بہتر اسے کوئی نہیں لڑسکتا ہے۔پاکستان کی بحران سے اٹی تاریخ میں اس پر کسی کو حیرت نہیں کہ اس قانونی اور انتظامی معاملے کو میڈیا کے ذریعے ملک کا سب سے بڑا سیاسی مقدمہ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔

باخبراحباب کہتے ہیں کہ ملکی تاریخ کی اہم ترین تحقیقات کو سیاسی مقدمہ بنابھی حکمران جماعت کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے حکمران جماعت کا خیال ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے معاملات کو الجھا کر رعایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آئینی وقانونی ماہرین کے مشوروں کو نظر اندازکرتے ہوئے باوجود شریف خاندان کے انٹرویوزکروائے گئے ‘اس کے بعد وزیراعظم کے قوم اور پارلیمنٹ خطابات‘جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد شریف خاندان اور اہم حکومتی عہدیدران کی پریس کانفرنسیں کروائی جاتی رہیں-وفاقی کابینہ کے اراکین الگ پریس کانفرنسیں کرتے نظرآئے جبکہ سوشل میڈیا پر مسلم لیگ نون کی ٹیم نے طوفان برپا کیئے رکھا- ماہرین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے جے آئی ٹی کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان بچکانہ ہے کیونکہ اگر نون لیگ کو جے آئی ٹی پر اعتراض تھا تو انہیں تحقیقات میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس وقت سپریم کورٹ کو مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیے تھے مگر شریف خاندان نے اس وقت کو ضائع کردیا اور ٹی وی چینلزکی ریکارڈنگزکی صورت میں جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو ایسا مواد فراہم کردیا جو جے آئی ٹی کے تحفظات اور خدشات کو تقویت بخشتا ہے- حکمران جماعت کے لیے ایک اور مشکل ترین معاملہ ایف آئی اے کی جانب سے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلاف ریکارڈ میں ردوبدل کے مقدمہ کی تحقیقات شروع کرنا ہے اگر تحقیقات کے دوران ظفرحجازی اس شخصیت کا نام اگل دیتے ہیں جس کے ایماءپر انہوں نے حدیبہ پیپرملزاور شریف خاندان کے دیگر کاروباری اداروں کے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کی تو وزیراعظم ان کے خاندان اور قریبی ساتھیوں کا نااہلی سے بچنا ممکن نہیں رہے گا-بعض ماہرین تو وزیراعظم اور ان کے خاندان کے افراد اور متعدد ساتھوں کو کو اگلے ایک ماہ کے دوران سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے نااہل ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں مگر اصل صورتحال 17جولائی کو سپریم کورٹ میں کیس کی سنوائی کے بعدواضح ہوگی اگرچہ آئندہ پیر کو ہونے والی سماعت میں عدالت عظمی کی جانب سے کسی حتمی فیصلے کی توقع نہیں تاہم اس سماعت میں مستقبل میں ہونے والے کئی اہم فیصلوں کی بنیادوں کا تعین ضرور ہوجائے گا-