سائنسی تحقیق میں فراڈ کا بڑھتا ہوا رجحان

DW ڈی ڈبلیو اتوار 12 مئی 2024 16:00

سائنسی تحقیق میں فراڈ کا بڑھتا ہوا رجحان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2024ء) انٹر نیشنل ڈائریکٹری آف اوپن سائنس جرنلز کے مطابق سنہ 2023 میں 9 ملین سے زائد سائنسی مقالا جات شائع ہوئے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023 میں گلوبل سکالری جرنل پبلشنگ مارکیٹ میں ایک اعشاریہ پچانوے بلین ڈالر کا اضافہ ہوا۔ توقع ہے کہ 2027 تک یہ رقم تین اعشاریہ ایک بلین ڈالر تک جا پہنچے گی۔

ترقی یافتہ ممالک اپنے سالانہ بجٹ میں سائنسی تحقیق کے لئے خاص فنڈز مختص کرتے ہیں جس کی وجہ سے حالیہ برسوں میں سائنسی تحقیق میں کافی تیزی آئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی سائنس پیپرز کی اشاعت میں فراڈ کے کیسز میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

سپرنگر سائنس جرنل میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق 2023 میں شائع ہونے والے 50 پئیر ریویوڈ (ہم مرتبہ تجزیہ شدہ) سائنس پیپرز کا جدید تکنیک سے کئی بار جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ ان میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے لفظی ہیرا پھیری کی گئی تھی۔

(جاری ہے)

سائنسی تحقیق میں بڑھتے فراڈ کا آغاز

نیچر سائنس جرنل کے مطابق دنیا بھر میں ہر برس بہت سے شائع شدہ سائنس پیپرز کا دوبارہ تجزیہ کر کے انھیں اشاعت سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ لیکن 2023 میں ایسے دس ہزار پیپرز خارج کئے گئے۔

اس مسئلے پر عالمی سطح پر بحث کا آغاز 2023 کے وسط میں ہوا جب تحقیقی بد انتظامی کے الزامات کا سامنا کرنے پر سٹینفورڈ یونیورسٹی کے صدر مارک ٹیسئیے لیوین کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا۔

اگرچہ مارک پر تحقیقی بد انتظامی کے الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے مگر نیورو سائنس سے متعلق ایسے پانچ ریسرچ پیپرز میں سنگین خامیاں سامنے آئی تھیں جن کے وہ مرکزی مصنف تھے۔

سائنسی مقالوں میں اس بد انتطامی کو سامنے لانے پر سٹینفورڈ یونیورسٹی کے اخبار "سٹینفورڈ ڈیلی" کے انویسٹیگیٹو ایڈیٹر تھیوبیکر (Theo Baker)کو "جارج پولک جرنلزم ایوارڈ" سے نوازا گیا تھا۔

اس کے بعد دنیا بھر سے بڑھتے ہوئے اشاعتی فراڈ کی آوازیں زور پکڑتی گئیں۔

سائنسی پیپرز میں بد عنوانی کن طریقوں سے کی جاتی ہے؟

نیچر سائنس جرنل کے ایڈیٹر رچرڈ وین نورڈن (Richard Van Noorden) کہتے ہیں کہ سائنس پیپرز میں کئی طریقوں سے ہیرا پھیری یا بد عنوانی کی جا سکتی ہے۔ مثلا تحقیق کا ڈیٹا مصنوعی ذہانت کی مدد سے جعلی طور پر تیار کرنا، یا گوگل سے ڈیٹا لے کر اسے لفظی ادل بدل سے نئی صورت میں ڈھالنا وغیرہ۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ پئیر ریویو میں دھوکہ دہی کے لیے سائنسدان ایک دوسرے کو مدد دیتے ہوئے تحقیق کا ڈیٹا تجزیے کیے بغیر پاس کر دیتے ہیں۔ ایسے زیادہ تر پیپرز کا متن یا مواد کہیں سے چوری کیا گیا ہوتا ہے جس کے لیے آج کل چیٹ بوٹس بھی استعمال کی جارہی ہیں۔

نورڈن کے مطابق دنیا بھر میں ایسی آرگنائزیشن کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو جعلی سائنسی پیپرز بناتی یا بیچتی ہیں۔

انھیں "پیپر ملز" کہا جاتا ہے۔ یہ تنظیمیں ایسے ممالک میں زیادہ فعال ہیں جہاں یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم اور سائنسی تحقیق کا رجحان کم ہے۔ لہذا طلبہ بیرون ممالک میں تعلیم جاری رکھنے کے لئے جعلی پیپرز شائع کرواتے ہیں۔

سائنسی پیپرز میں فراڈ کس طرح پکڑا جاتا ہے؟

دنیا بھر میں ڈیجیٹل میڈیا کے بڑھتے اثر سے سائنسی تحقیق بھی محفوظ نہیں رہ سکی۔

سائنسی حلقوں میں آج کل ایک نئی رسم چل نکلی ہے کہ پیپر شائع ہونے سے پہلے ہی اس کا پریس ریلیز جاری کر دیا جاتا ہے جس میں تحقیق کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک فراڈ ریسرچ پیپر تھا۔

ایلزبتھ بک (Elisabeth Bik) سائنس انٹیگریٹی کی کنسلٹنٹ ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سنجیدہ سائنسی حلقوں کے لیے جعلی سائنسی تحقیق کا بڑھتا رجحان تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ سائنسدانوں نے مل کر نان پرافٹ گروپس بنائے ہیں جو اس طرح کی جعلی تحقیقات کا بھانڈا پھوڑتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس کے علاوہ "پئیر پب" اور ریٹریکشن واچ"ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں اشاعت سے خارج کیے گئے سائنس پیپرز کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ ایلزبتھ بتاتی ہیں کہ اشاعت سے خارج کیے گئے پیپرز سائنسی تحقیق میں سنگین مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ سادہ الفاظ میں آپ اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ تحقیق کے دوران سائنسدان اور محققین ریسرچ گیٹ اور دیگر سائنسی جریدوں میں متعلقہ موضوع پر شائع شدہ پیپرز سے مواد لیتے ہیں لیکن وہاں اس طرح کی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوتیں کہ متعلقہ پیپر کو اشاعت سے خارج کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح میڈیا اور صحافی بھی اپنی رپورٹس کے لیے ڈیٹا لیتے ہیں اور انھیں یہ علم نہیں ہو تاکہ متعلقہ پیپر پائیریٹڈ یا جعلی ہے۔

مصنوعی ذہانت سے جعلی تحقیق کیسے پکڑی جاتی ہے؟

سپرنگر سائنس جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مرکزی مصنف میکولاج پینی وسکی (Mikolaj Piniewski) وارسا یونیورسٹی آف لائف سائنسز سے وابسطہ ہیں اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جعلی سائنسی تحقیق فراڈ کو پکڑنے میں ان کی ٹیم نے اے آئی سے مدد لی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت پیپرز میں دیے گئے ڈیٹا میں ایسے پیٹرنز تلاش کر سکتی ہے جو اصولاً اس ڈیٹا میں نہیں ہونے چاہییں۔

اس کے علاوہ یہ پیپر کے متن میں چوری شدہ مواد کی نشاندہی بھی کر سکتی ہے-

ان کے مطابق جن 50 پیپرز پر ان کی ٹیم کو سرقہ شدہ یا جعلی مواد کا شبہہ ہو ا تھا ان کے مصنفین سے اس کا پورا ڈیٹا شائع کرنے کی درخواست کی گئی تھی- اس ڈیٹا کی ایکسل شیٹ کا اے آئی کی مدد سے جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر کے ڈیٹا کو بار بار کاپی پیسٹ کر کے رد و بدل اور ہیرا پھیری کی گئی ہے۔

ان کے مطابق کئی پیپرز میں اے آئی نے چوری شدہ متن اور اس کے اورجنل سورس کی نشاندہی بھی کی۔

پاکستان میں صورتحال کتنی کشیدہ ہے؟

دسمبر 2023 میں نیچر سائنس جنرل میں ایسے ممالک کی ایک فہرست جاری کی گئی تھی جن کی تحقیق اشاعت کے بعد ہٹا دی جاتی ہیں۔ اس فہرست کے مطابق 2023 میں 10 ہزار سے زائد سائنسی مقالے شائع ہونے کے بعد خارج کیے گئے تھے جن میں پہلے نمبر پر سعوی عرب اور دوسرے نمبر پر پاکستان کے محققین کے پیپرز تھے۔

جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔

ڈاکٹر نیئر عالم سینئر محقق اور جیولوجسٹ ہیں انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سائنسی پیپرز کی اشاعت طلباء اور سائنس دانوں کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ بہت سی بین الاقوامی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں طلباء کے داخلے اور سائنسدانوں کی ترقی کے لیے جو معیار مقرر ہیں ان میں شائع شدہ پیپرز کی ایک مخصوص تعداد کا ہونا ضروری ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی جامعات میں بین الاقوامی سطح کی تحقیق کا فقدان ہے۔ ایک تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس زیادہ بجٹ نہیں ہے کہ وہ تحقیق کو سپانسر کرے دوسرے لیباٹریوں میں جدید آلات و سہولیات کا بھی فقدان ہے۔

ان کے مطابق ایک تیسری بڑی وجہ انگریزی زبان میں سائنس لکھنے کی صلاحیتوں کی کمی ہے۔ طلباء کو جامعات میں سائنسی مقا لاجات لکھنے کی کوئی خاص تربیت نہیں دی جاتی۔ لہذا وہ جعلی تحقیق یا پیپر ملز جیسے ذرائع کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ پیپرز بعد ازاں اشاعت سے خارج کر دیے جاتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔