اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی ایف یو جے کی کوششوں سے متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کا ڈراپ سین ہو گیا

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس متنازعہ آرڈیننس کو پریس کونسل بھیجنے والے افسروں کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا اور رپورٹ طلب کر لی آزادی صحافت پر کسی قسم کی قدغن کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی ایسی سازش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جائے گی،صحافتی و اخباری مالکان کی تنظیموں کی پریس کانفرنس

پیر 11 ستمبر 2017 21:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 ستمبر2017ء) اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی ایف یو جے کی کوششوں سے متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کا ڈراپ سین ہو گیا، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اس متنازعہ آرڈیننس کو پریس کونسل بھیجنے والے افسروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا اور رپورٹ طلب کر لی۔

تینوں تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ آزادی صحافت پر کسی قسم کی قدغن کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی ایسی سازش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار اے پی این ایس کے قاضی اسد عابد، سی پی این ای کے عامر محمود، انور ساجدی اور پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، ناصر زیدی، خورشید تنویر، سول سوسائٹی کے نمائندوں ماریہ اقبال ترانہ، شاہ جہان خان نے پریس کونسل آف پاکستان کے اجلاس کے بعد نیشنل پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

اے پی این ایس کے قاضی اسد عابد نے کہا کہ پریس کونسل آف پاکستان کے آج ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کا معاملہ شامل تھا۔ اجلاس میں تینوں بڑی صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اس متنازعہ اور کالے آرڈیننس کو مشترکہ طور پر مسترد کر دیا۔ قاضی اسد عابد نے بتایا کہ اے پی این ایس کی طرف سے مجیب الرحمن شامی نے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ متنازعہ آرڈیننس کا معاملہ اٹھایا جس پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح طور پر اس آرڈیننس سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ان کی حکومت کی پالیسی نہیں ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت ایسی کسی بھی قانون سازی کا سوچ بھی نہیں سکتی جس سے آزادی صحافت پر کوئی زد پڑتی ہو۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آزاد صحافت اور میڈیا ہماری پالیسی ہے اور صحافتی تنظیموں کے تمام تحفظات دور کئے جائیں گے۔ قاضی اسد عابد نے مزید بتایا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب سے بھی ملاقات کی اور ان سے متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کا معاملہ اٹھایا۔

اس موقع پر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ وہ اس متنازعہ آرڈیننس کے سارے معاملے سے لاعلم ہیں انہوں نے نہ تو اس آرڈیننس کا مسودہ دیکھا ہے اور نہ ہی اس کی مجھ سے منظوری لی گئی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ میں نے اس سلسلے میں سیکرٹری اطلاعات سے بھی بات کی ہے وہ بھی اس سارے معاملے سے لاعلم ہیں۔ صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کی طرف سے یہ معاملہ اٹھائے جانے پر اس معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی ہے اور اس متنازعہ آرڈیننس کو پریس کونسل کو بھجوانے پر متعلقہ افسر کو او ایس ڈی بھی بنانے کا حکم دے دیا جس پر بعدازاں عملدرآمد بھی ہو گیا۔

اس موقع پر سی پی این ای کے نمائندے عامر محمود نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا یادگار دن ہے جب میڈیا کے تینوں بڑے سٹیک ہولڈرز آزادی صحافت کیلئے ایک صفحے پر ہیں اور ہم نے یہ عہد کر لیا ہے کہ آزادی صحافت حاصل کرنے کیلئے دی جانے والی بے پناہ قربانیوں کو کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جی) کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں سے جب سے متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کی خبر آئی ہے پورے ملک کے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کیلئے کرب کے لمحات تھے اور پوری کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔

افضل بٹ نے کہا کہ سازش کے تحت متعارف کرائے گئے متنازعہ آرڈیننس کے مسودے نے ڈکیٹیروں کے کالے قوانین کو بھی مات دے دی ہے جسے پی ایف یو جے دیکھتے ہی مسترد کر دیا تھا۔ صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے اے پی این ایس اور سی پی این ای کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس متازعہ آرڈیننس کے خلاف پی ایف یو جے کا ساتھ دیا۔ پی ایف یو جے کے نمائندہ ناصر زیدی نے کہا کہ آج ہم نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے ایسے عناصر کو واضح پیغام دے دیا ہے جو میڈیا پر پابندیوں کے لئے کالے قوانین لانے کا سوچ رہے ہیں کہ میڈیا کے تمام سٹیک ہولڈرز آزادی صحافت کیلئے اکٹھے ہیں۔

انہوں نے اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی ایف یو جے کے عہدیداروں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس کالے آرڈیننس کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کیا۔