جہانگیر ترین نا اہلی کیس ،ْپارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہ ہے اس پر تلوار نہیں لٹکنی چاہیے ،ْ چیف جسٹس سپریم کورٹ

آف شور کمپنی چھپانے کا مقصد دولت چھپانا ہوتا ہے ،ْقانون کہتا ہے اثاثوں اور دولت کو ظاہر کیا جائے ،ْ کیا عوامی مفاد میں یہ مقدمہ داخل کیا گیا یہاں ہم آرٹیکل 62ون ایف کے اطلاق کودیکھ رہے ہیں ،ْججز کے ریمارکس آپ کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے ،ْچیف جسٹس کا جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار ْدرخواست پر اعتراض نہیں ،ْ درخواست گزار نے عدالت کے سامنے غلط بیانی کی ،ْوکیل جہانگیر ترین بینک ڈیفالٹرہونے پر قرض معافی کا معاملہ ہوسکتا ہے ،ْجسٹس فیصل عرب قرض معافی اور ڈیفالٹرہونے میں فرق ہے ،ْجہانگیر ترین پر بینک ڈیفالٹر ہونے کا الزام نہیں اور نا ہی قرض معاف کرایا ،ْ سکندر بشیر

بدھ 4 اکتوبر 2017 18:46

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اکتوبر2017ء) سپریم کورٹ میں جہانگیر ترین کی نااہلی کیس کی سماعت میں عدالت نے کہا ہے کہ آف شور کمپنی چھپانے کا مقصد دولت چھپانا ہوتا ہے ،ْقانون کہتا ہے اثاثوں اور دولت کو ظاہر کیا جائے ،ْ کیا عوامی مفاد میں یہ مقدمہ داخل کیا گیا یہاں ہم آرٹیکل 62ون ایف کے اطلاق کودیکھ رہے ہیں ،ْپارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہ ہے اس پر تلوار نہیں لٹکنی چاہیے۔

بدھ کو حنیف عباسی کی درخواست پر جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کا نام پاناما پیپرز میں شامل نہیں ،ْمیرا پہلا اعتراض آئینی درخواست پر ہے، حنیف عباسی نے درخواست عوامی مفاد کی بجائے سیاسی مقاصد کیلئے دائر کی۔

(جاری ہے)

سکندر مہمند نے کہا کہ سابق وزیراعظم کیخلاف جہانگیر ترین نے ریفرنس دائر کیا تھا ،ْجہانگیر ترین کیخلاف درخواست ادلے کا بدلہ ہے ،ْدرخواست گزار نے غلط موقف پیش کیا۔وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ جہانگیرترین کانام پاناما لیکس میں نہیں آیا ،ْ یہ درخواست سیاسی مقاصد کیلئے دائر کی گئی ہے ،ْ درخواست کسی دوسرے کے کہنے پر دائر کی گئی۔جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں نہیں توکس کے مفاد میں دائر ہوئی ہی سکندر مہمند نے کہا کہ یہ درخواست پاناما کیس کے بدلے میں دائر کی گئی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا جہانگیر ترین عوامی عہدہ نہیں رکھتی جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ جہانگیر خان ترین عوامی عہدہ رکھتے ہیں ،ْمیرا موقف یہ کہ درخواست گزار کے اپنے ہاتھ صاف نہیں، عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج نہیں کر رہا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جہانگیر ترین کوئی حکومتی عہدہ نہیں رکھتے، کیا جو اصول پاناما میں طے ہوئے انکا اطلاق آپ پربھی ہو۔

جہانگیر ترین بھی عوامی عہدہ رکھتے ہیں، کیا جہانگیر ترین کی ویسی اسکروٹنی نہیں ہونی چاہیی جسٹس عمرعطا نے کہا کہ آپ کاموقف ہے کہ درخواست پاناما درخواستوں کاکائونٹر بلاسٹ ہے۔سکندر مہمند نے کہا کہ اگر جہانگیرترین نے کچھ غلط بیانی کی توبے شک اسکروٹنی کی جائے۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ یہاں ہم آرٹیکل 62 ون ایف کے اطلاق کودیکھ رہے ہیں۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ تمام اراکین قابل احتساب ہیں، ہمارااعتراض ہے کہ درخواست گزار کے اپنے ہاتھ صاف نہیں، درخواست گزار نیک نیتی کے ساتھ عدالت نہیں آیا۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاآپ کو درخواست کے قابل سماعت ہونے پراعتراض ہی سکندر مہمند نے کہا کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے پراعتراض نہیں ،ْمیرا اعتراض درخواست گزار کی نیت پر ہے ،ْجہانگیرترین نے عدالتی دائرہ اختیار کوچیلنج کرنے کانہیں کہا۔

وکیل جہانگیرترین نے کہا کہ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں عدالت کے سامنے غلط بیانی کی، ایف بی آر آف شور کمپنی پرجہانگیرترین کو2 ستمبرکونوٹس جاری کرچکاہے، درخواست گزار نے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نے موقف اپنایاہے کہ جہانگیرترین کی آف شور کمپنی ہے ،ْ درخواست گزار کہتے ہیں انہیں بذریعہ میڈیا آپ کی کمپنی کامعلوم ہوا نوازشریف عمران خان کے سیاسی مخالف، سیاسی مخالفت کے باوجود درخواست کو بدنیتی کیسے کہہ دیں سکندربشیر نے کہا کہ جہانگیرترین پر قرض معافی اورالیکشن کمیشن کوغلط معلومات دینے کاالزام ہے، ایف بی آر کوغلط معلومات فراہم کرنے کاالزام ہے ،ْ جہانگیرترین پرغیرقانونی حصص کی خریداری کاالزام بھی ہے، جہانگیرترین پرآف شورکمپنی چھپانے کابھی الزام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیرترین نے آف شورکمپنی کو مبینہ کیوں کہا جہانگیرترین نے خود کمپنی کوتسلیم کیاہے۔سکندر مہمند نے کہا کہ جہانگیرترین کمپنی کے بینیفیشل مالک نہیں ،ْحنیف عباسی نے میرے موکل کے خلاف درخواست انفرادی حثیت میں داخل کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کا سیاسی پس منظر ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اسکے پیچھے پارٹی کا ہاتھ ہے۔

وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ میرے موکل نے ن لیگ سے سیاسی وابستگی کو نہیں چھپایا۔جسٹس عمر عطا نے ریمارکس دیے کہ آف شور کمپنی چھپانے کا مقصد دولت چھپانا ہوتا ہے، قانون کہتا ہے کہ اثاثے اور دولت کو ظاہر کیا جائے،اس لیے عوامی مفاد میں یہ مقدمہ داخل کیا گیا۔وکیل جہانگیر ترین نے کہا کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی 4 نکات پر مانگی گئی، نا اہلی قرضے معاف کروانے اور اثاثوں سے متعلق جھوٹا بیان حلفی دینے پر مانگی گئی، نااہلی باہمی تجارت اور آف شور کمپنیز کے ایشوز پر بھی مانگی گئی ہے، درخواست گزار جہانگیر ترین کے خلاف صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر ڈیکلریشن چاہتے ہیں۔

انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرے موکل پر قرض معافی کا الزام اسٹیٹ بنک کے خط کی بنیاد پر لگایا گیا، سپریم کورٹ میں قرض معافی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں دئیے گئے، اگر قرض کسی شخص کے اپنے نام بیوی یا زیر کفالت کے نام ہو تو ڈیکلریشن دیا جاتا ہے، ڈیکلریشن کے لئے قرض کی رقم 2 ملین تک ہونی چاہئے، جہانگیر ترین پر الزام قرض معافی کا ہے قرض ادا کرنے کا نہیں۔

جسٹس عرب نے ریمارکس دیے کہ قرض معافی کا معاملہ قرض ڈیفالٹ کے زمرے میں آتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاناما اوران درخوستوں میں قانونی سوالات مشترک ہیں۔سکندر بشیر نے کہا کہ جہانگیرترین 2013کے کاغذات پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے، جہانگیرترین ضمنی الیکشن میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے، جہانگیرترین کے 2015کے کاغذات نامزدگی کسی نے چیلنج نہیں کیے، 2013 کے کاغذات نامزدگی پرضمنی الیکشن کی رکنیت ختم نہیں کی جاسکتی، 2013کے الیکشن کے کاغذات میں اگرکوئی تضاد تھاتووہ متعلقہ فورم پر زیرالتوا ہے، پاناما میں نااہلی تسلیم شدہ حقائق پرہوئی، یوسف رضاگیلانی کی نااہلی سزاکے بعد ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے کی 36سماعتیں کہی جاتی ہیں، ہم اس مقدمے کو تحمل سے سن رہے ہیں، درست قانون بننا چاہیے، پارلیمنٹیرینز ہمارے نمائندے ہیں، پارلیمنٹ ایک خودمختار ادارہے ،ْپارلیمنٹ پر تلوار نہیں لٹکنا چاہیے، ہم جب ایسا مقدمہ آتا ہے تو انہیں ترازو میں تولتے ہیں، جو ظاہر کیا گیا اس میں دھوکہ دہی کا پہلو نہیں آنا چاہیے۔بعد ازاں کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔