سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کا یورو بانڈز کے اجرا پرماہرانہ رائے کیلئے بلائے گئے بینکوں کے نمائندوںکے نہ آنے پر برہمی کا اظہار

یورو بانڈز کے اجرا سے پہلے بڑی رقوم مبینہ طور پر پاکستان سے باہر گئیں، تین بینکوں کو اس کی تفصیلات کے لیے ڈیڑھ سال سے بلا بلا کر تھک گئے ہیں، کمیٹی بینک حکام کی طلبی کا اختیار رکھتی ہے، لگتا ہے بینک حکام کو روکا جا رہا ہے ، کمیٹی درآمدی اشیا پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی ایف بی آر نے عائد کی،،وزارت تجارت ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ وزارت تجارت کی سفارش پر کیا گیا،درآمدی بل میں کمی لانا چاہتی تھی، پچھلے سال کی پہلی سہہ ماہی میں 14 کڑور کے کھیرے درآمد کئے گئے، ایف بی آررواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں 48 کروڑ مالیت کے کھیرے درآمد کئے گئے،ایف بی آر ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے معاملے پر وزارت تجارت اور ایف بی آر کے موقف میں تضاد

جمعرات 9 نومبر 2017 20:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 09 نومبر2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے یورو بانڈز کے اجرا پر بینکوں سے ماہرانہ رائے کے لیے بلانے پر نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یورو بانڈز کے اجرا سے پہلے بڑی رقوم مبینہ طور پر پاکستان سے باہر گئیں، تین بینکوں کو اس کی تفصیلات کے لیے ڈیڑھ سال سے بلا بلا کر تھک گئے ہیں، سینیٹ خزانہ کمیٹی بینک آفیشلز کو سمن کرنے کا اختیار رکھتی ہے، لگتا ہے بینکوں کے آفیشلز کو روکا جا رہا ہے اور وہ نہ آنے کے حیلے بہانے تلاش کررہے ہیں، ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کے معاملے پر وزارت تجارت اور ایف بی آر کے موقف میں تضاد،وزارت تجارت نے کہا کہ درآمدی اشیا پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی ایف بی آر نے عائد کی،ایف بی آر نے کہا کہ ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ وزارت تجارت کی سفارش پر کیا گیا،درآمدی بل میں کمی لانا چاہتی تھی، پچھلے سال کی پہلی سہہ ماہی میں 14 کڑور کے کھیرے درآمد کیئے گئے، ایف بی آررواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں 48 کروڑ مالیت کے کھیرے درآمد ہوئے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں درآمدی اشیا پر ریگولیڑی ڈیوٹی عائد کرنے کا معاملہ زیر غور لایا گیا۔ ٹائر ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے قائمہ کمیٹی کوبتا یا کہ ملک میں ٹرک کا ایک بھی ٹائر نہیں بنایا جاتا اورلگژری و بڑی گاڑیوں سمیت سالانہ36ارب روپے کے درآمدکیے جارہے ہیں۔

پہلے 15فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جس کو 20فیصدمزید بڑھایا گیا ہے۔ ملک میں ٹائر وں کی طلب کا 20فیصد مقامی صنعتوں سے پورا ہوتا ہے باقی تمام درآمد کیا جاتا ہے۔ ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے سے ٹائروں کی ا سملنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں 25لاکھ ٹائروں کی طلب ہے۔ 40فیصد ٹائرا سمگلنگ کے ذریعے آتے ہیں ۔ سی پیک اور دیگر سڑکوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونے کی وجہ سے ٹائروں کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔

ملک میں زیاد ہ سے زیادہ دو ماہ کا سٹاک موجود ہے۔95فیصد ٹائر ریڈیئل کے ہیں اور ملک میں ٹائر بنانے کا کارخانہ 1962میں لگایا گیا تھا۔ رکن کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ جو چیزیں پائپ لائنوں میں ہوں ان پر ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا ۔ ٹائر ضرورت کی چیز ہے۔ ادارے جس طرح ہرچیز میں ٹیکس لگا رہے ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہیے۔

اس طرح کے ٹیکس خلاف آئین ہیں ۔ ٹائروں کی امپورٹ پر 35فیصد ٹیکس لگانا لوگوں کے گلے کاٹنے کے مترادف ہے۔ امپورٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ٹیکس میں اضافہ ا سمگلنگ کو فروغ دیتے ہیں۔ جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں ملک کی صنعت کے نمائندوں کوسن کر فیصلہ کیا جائے گا۔ایف بی آر حکام نے کہا کہ ڈیوٹی لگانے سے بزنس کیسے متاثر ہوگا۔ قیمت تو صارفین کو دینا ہو گی۔

قائمہ کمیٹی کو ایپٹما حکام نے بتایا کہ 1250کے وی کے درآمدی جنریٹرز پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ درآمدی گیس کے جنریٹرز پر سیل ٹیکس سمیت 41فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی۔ جس پر قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ایف بی آر فوری طور پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے والا نوٹیفیکشن واپس لیں۔ قائمہ کمیٹی نے ایسٹ مینجمنٹ کمپنیوں پر کم سے کم 8فیصد ٹیکس لگانے کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا ۔

کمیٹی کو بتایاگیا کہ 2015میں کچھ ترامیم کی گئی تھی کارپوریٹ سیکٹر کے لیے کم سے کم 8فیصد ودھ ہولڈنگ ٹیکس لاگو کیا گیا تھا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے ایف بی آر اور ایسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کے نمائندوں کو ملکر مسئلے کے حل کے لیے تجاویز تیار کرنے کی ہدایت کردی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں آڈیٹر جنرل ترمیمی بل 2017کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ آڈیٹر جنرل نے قائمہ کمیٹی کو بتایا یہ بل قو می اسمبلی سے پاس ہوچکا ہے۔

آڈیٹرجنرل کے فنکشز ، پاور ز،ٹرم اینڈ کنڈیشن میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں ۔2001میں آرڈیننس آیا تھا اس کے بعد کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں بیشمار بنیادی تبدیلیاں آچکی ہیں اور اٹھارویں ترمیم کے بعد آرڈیننس میں ترمیم کرنا بہت ضروری ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل کا تفصیل سے جائزہ لینے کے لیے معاملہ آئندہ اجلاس تک موخر کردیا ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یورو بانڈ کے اجرا کے حوالے سے تین بینکوں کو بلایا تھا مگر ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے اگر آئندہ اجلاس میں شرکت نہ کی گئی تو آئین کے تحت سخت کارروائی لائی جائے گی۔ قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز محسن خان لغاری، کامل علی آغا، سعود مجید ، بیرسٹر مرتضی وہاب اور محسن عزیز کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ ، چیئرمین ایف بی آر ، آڈیٹرجنرل پاکستان ، ایڈیشنل سکرٹری کامرس کے علاوہ مختلف ایسوسی ایشن کے نمائندگان نے شرکت کی۔