اداروں کے درمیان محاذ آرائی وفاق کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی،رضاربانی

تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا، فیض آباد میں کیا ہوا، بھول گئے کہ آئین کا آرٹیکل 256 بھی ہے،پاکستان وار لاڈز کا متحمل نہیں ہوسکتا ایک بار پھر مذہب کو سیاسی ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ، جب ملک اسلام کے لیے بنا تو پھر اسلام کو خطرہ کیسے ہو سکتا ہے،عملی سیاست کو بہتر بنانے کے لیے طلبا تنظیموں پر عائد پابندی اٹھالی جائے،تقریب سے خطاب

اتوار 3 دسمبر 2017 22:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 دسمبر2017ء) چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا،اداروں کے درمیان محاذ آرائی وفاق کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ سنئیرسیاستدان جاوید ہاشمی کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب میں انہوں نے طلبہ تنظیموں پر پابندی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ضیا الحق دور میں منصوبے کے تحت طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی گئی تھی۔

اس دور میں انتہا پسند تنظیموں کو کالجز اور سکولز میں کھلی چھوٹ حاصل تھی۔چیرمین سینٹ نے کہا کہ فیض آباد میں کیا ہوا، بھول گئے کہ آئین کا آرٹکل 256 بھی ہے،اس آرٹیکل میں لکھا ہے کہ پرائیویٹ لشکر اور آرمی نہیں بن سکتے،اس آرٹیکل کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔

(جاری ہے)

نہ صرف وفاقی دارالحکومت بلکہ دیگر جگہوں پر بھی خلاف ورزی ہوئی۔کیا ہم نے رینجرز اور پولیس والوں کے بیانات نہیں پڑھے۔

ان بیانات میں ان کا کہنا تھا کہ دھرنے والوں کے پاس جدید ترین اسلحہ موجود تھا۔چیئرمین سینٹ میں رینجرز کا جو سپاہی آنکھ کھو بیٹھا ریاست نے اس کی محض معمولی مرہم پٹی کی ،کیا یہ ظلم نہیں۔کیا ریاست ڈیوٹی سے انحراف نہیں کر رہی۔ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں بلکہ مکمل ختم کیا گیا۔ریاست کی حکمرانی کو ختم کرکے ہم کس چیز کو جنم دے رہے ہیں۔آپ ریاست میں وارڈنز کو جنم دے رہے ہیں۔

پاکستان وار لاڈز کا متحمل نہیں ہوسکتا۔جاوید ہاشمی کی جدوجہد اس ریاست کے لئے نہیں بلکہ ایسے وفاق کے لئے ہے جس مین قانون اور آئین کی حکمرانی ہو۔جہاں ادارے مضبوط ہوں۔ چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ ریاست نے ضیائ دور میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی۔تاریخی عمل میں طلبا تنظیمیں، ٹریڈ یونینز اور سوچنے والا طبقہ پیراڈائم بناتا ہے جو مارشلا خلاف کھڑا ہوتا ہے۔

کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ترقی پسند تنظیموں پر پابندی لگائی گئی اور انتہاپسند تنظیموں کو اجازت دی گئی۔اسی لیے آج دہشتگرد کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پیدا ہو رہے ہیںیہ صورتحال ریاست نے خود پیدا کی وقت کی ضرورت ہے کہ عملی سیاست کو بہتر بنانے کے لیے طلبا تنظیموں پر عائد پابندی اٹھالی جائے۔ ریاست کو آج کئی اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں۔

ضروری ہے کہ تمام ملکی ادارے ایک پیج پر ہوں اور آئین کے تحت مقررہ دائرہ کار میں کردار ادا کریں۔اداروں کے درمیان محاذآرائی وفاق کے لئے نقصان دہ ہوگی۔تمام سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے۔ایک بار پھر مذہب کو سیاسی ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہی-پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

آئین کا آرٹیکل دو کہتا ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے۔آئین میں درج ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے تو پھر اسلام کو پاکستان میں کس سے خطرہ ہوسکتا ہے۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے۔ جب ملک اسلام کے لیے بنا تو پھر اسلام کو خطرہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر مذہب کو سیاسی ایجنڈا بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :