چین نیپال کیلئے حقیقت ہے ، بھارت کو اسے تسلیم کرنا چاہئے،نیپالی تجزیہ کار

چین کے ساتھ قربت بڑھانا اپنے مفادات کے حصول کیلئے کسی خود مختار ملک کی خواہش ہے، لیکھا ناتھ پانڈے

جمعرات 4 جنوری 2018 12:47

کٹھمنڈو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 04 جنوری2018ء) ممتاز تجزیہ نگار اور ٹرائی بو ون یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر لیکھاناتھ پانڈے کا کہنا ہے کہ چین نیپال کے لئے ایک حقیقت ہے اور بھارت کو چاہئے کہ وہ اسے تسلیم کرلے ۔انہوں نے کہا کہ نیپال کی چین کے ساتھ قربت جس کے بارے میں امکان ہے کہ یہ اس کی نئی بائیں بازو کی حکومت نے مزید گہری ہو گی ، اپنے قومی مفادات کے حصول کیلئے ایک خود مختار ملک کی خواہش ہے لہذا بھارت کو چاہئے کہ اسے اس تناظر میں قبول کر لے ،نیپال میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے بعد بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد نئی حکومت تشکیل دے گا ، انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتوں کی بھاری اکثریت کو کٹھمنڈو میں اثر ورسوخ کے بارے میں بھارت پر چین کی کامیابی سے تعبیر کیا جارہا ہے ، توقع ہے کہ چین نواز قوم پرست رہنما کے پی شرما اولائی نئی حکومت کے وزیر اعظم ہونگے ، اس اتحاد کی اشتراکی چین کے ساتھ نظریاتی وابستگی ہے ،اس کے سرکردہ رہنمائوں اولائی اور پشپا کمال داہل جو کہ دونوں سابق وزیر اعظم ہیں کے بی سرکردہ چینی اور پارٹی رہنمائوں کے ساتھ ذاتی رابطے ہیں، منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے بھارت کا دورہ کرنے کی روایت کو توڑتے ہوئے داہل نے اگست 2008ء میں سب سے پہلے چین کا دورہ کرنے کا انتخاب کیا تھا جبکہ اولائی نے مارچ 2016ء میں نیپالی رہنما کے طورپر بیجنگ پہنچنے پر ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ سمیت متعدد وعدوں پر دستخط کئے تھے،ان معاہدوں نے نہ صرف تجارت کیلئے بھارت پر نیپال کے کلی انحصار کا خاتمہ کیا بلکہ پٹرولیم درآمدات کیلئے نیپالی مارکیٹ کو بھی متنوع کیا ہے ،پٹرولیم کی درآمدات خشکی میں گھرے ہوئے اس ملک کیلئے بھارت کی طرف سے تین مرتبہ اقتصادی ناکہ بندی کا سامنے کر نے کے پیش نظر انتہائی اہم ہیں۔

(جاری ہے)

اولی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بنیادی ڈھانچوں کے اہم منصوبوں کیلئے چینی سرمایہ کاری لائیں گے اور موجودہ حکومت کی طر ف سے معاہدے میں بے قاعدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے 2.5بلین ڈالر کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے معاہدے کو ختم کرنے کے بعد اسے چین کے جی جوبہ گروپ کو دوبارہ دینے کا بھی وعدہ کیا، انتخابات کے بعد اولی نے تبت کے ساتھ ایک سرحدی چوکی کا دورہ کیا جہاں ٹرانس ہمالیہ ریلوے پراجیکٹ زیر غور ہے اور یہ اقدام چین کے ساتھ مستقبل کے اشتراک عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔

اولی جنہیں کبھی بھارت کا انتہائی قریبی خیال کیا جاتا تھا اس وقت بھارت کے خلاف ہو گئے جب بھارت نے ستمبر 2015ء میں اس کے آئین پر نیپال پر دبائو ڈالا ، اس کے بعد پانچ ماہ کی ناکہ بندی کردی اور اولی کو وزیر اعظم بننے سے روکنے کی کوشش کی تاہم وہ ترقی کیلئے بھارت سرمایہ کاری کے حصول کیخلاف نہیں ہیں ، نیپال کے سب سے بڑے ڈونر اور انویسٹر کی لسٹ میں چین کے بھارت سے سبقت لینے کے پیش نظر بھارت کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ بھارت اب بھی نیپال کو اپنا ’’آنگن ‘‘سمجھتا ہے،وہ چینی سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتا ہے لیکن اپنی ہمسائیگی کے معاملے میں گہری تشویش کااظہار کرتا ہے،نیپال کے بائیں بازو کے نئے رہنما بھارت کے خلاف چین کی حمایت نہ کر نے بلکہ توازن اور خوشحالی کے خواہاں ہیں ۔

متعلقہ عنوان :