رواں سال بجٹ میں زرعی قرضوں کے اجراء کے لئے 1001 ارب روپے مختص کئے گئے، وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان

منگل 13 فروری 2018 15:36

رواں سال بجٹ میں زرعی قرضوں کے اجراء کے لئے 1001 ارب روپے مختص کئے گئے، ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 فروری2018ء) وزارت خزانہ کی طرف سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ رواں سال بجٹ میں زرعی قرضوں کے اجراء کے لئے 1001 ارب روپے مختص کئے گئے تھے، زرعی قرضوں کے لئے فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بینک قرضہ انہی کاشتکاروں کو جاری کرتے ہیں جن کی طرف سے ریکوری بہتر ہوتی ہے، بینک اور کاشتکار کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، زرعی ترقیاتی بینک کی مالی حالت اتنی خراب ہے کہ سٹیٹ بینک سے 44 ارب روپے کا قرضہ حاصل کر رکھا ہے۔

پیر کو قومی اسمبلی میں سید نوید قمر کے پنجاب اور ملک کے باقی حصوں کے درمیان فارم قرضہ جات کی تقسیم میں عدم مساوات کے حوالے سے توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ قرضوں کے فام ہر صوبے میں قابل کاشت زمین کو مدنظر رکھ کر فارمولا ترتیب دیا گیا، پنجاب میں زیر کاشت رقبہ 77 فیصد، سندھ میں 12 فیصد، کے پی کے میں 5 فیصد، بلوچستان میں 6 فیصد ہے اس لحاظ سے پنجاب کو 72500 ملین، سندھ کو 14092 ملین، کے پی کے کو 7300 ملین اور بلوچستان 6600 ملین روپے کا زرعی قرضہ فراہم کیا گیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہہا کہ پنجاب میں زرعی ترقیاتی بینک کی 253 برانچیں ہیں جبکہ سندھ میں 93، کے پی کے میں 62 اور بلوچستان میں 31 برانچیں ہیں۔ سندھ کی 77 فیصد، بلوچستان کی 100 فیصد، کے پی کے کی 51 فیصد برانچیں نقصان میں جا رہی ہیں۔ پنجاب میں ریکوری بہتر ہے۔ توجہ مبذول نوٹس پر سید نوید قمر، سید غلام مصطفی شاہ، عبدالستار بچانی اور ڈاکٹر عذرا فضل کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت نے کہا کہ ہم کسی کو چور نہیں کہتے، جن علاقوں سے ریکوری نہیں ہو رہی، بینک قرضہ انہی کو دیتے ہیں جو واپس کرتے ہیں۔

رواں سال ہم نے بینکوں کو 1001 ارب روپے کا ٹارگٹ دیا گیا، قرضوں کے اجراء میں تینوں چھوٹے صوبوں کی نسبت پنجاب میں گروتھ کی شرح کم ہے، فنڈنگ کا کوئی مسئلہ نہیں، فنڈز تو پورے استعمال ہی نہیں ہوتے۔ ایک اور سوال کے جواب میں زرعی قرضوں کے اجراء میں زرعی ترقیاتی بینک کا حصہ 30 فیصد ہے، باقی دیگر کمرشل بینک کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں کے لئے دستیاب رقم بھی ابھی تک استعمال نہیں کی جا سکی، اس لئے فنڈز کی کمی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ صوبوں کے پاس ہے، صوبوں کو چاہیے کہ وہ سبسڈی دیں، زرعی ترقیاتی بینک کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ اس نے سٹیٹ بینک سے 44 ارب قرضہ حاصل کر رکھا ہے جس پر وہ سود ادا کر رہے ہیں، جن لوگوں سے ریکوری نہیں ہوتی، بینک انہیں مزید قرضہ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ زرعی قرضوں پر شرح سود بہت زیادہ ہے، غریب کاشتکار یہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔

اس پر وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ بینکوں کو ٹیکسوں کی وجہ سے شرح سود کم کرنے میں مشکلات کا آ رہی ہیں، تاہم حکومت اس معاملے پر بینکوں سے بات چیت کر رہی ہے۔ سید خورشید احمد شاہ اور حاجی غلام احمد بلور نے تجویز دی کہ زرعی قرضوں پر شرح سود اور اس کے اجراء کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جو بینکوں کے سربراہان کو طلب کر کے بات چیت کرے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ جس طرح پنجاب نے زرعی قرضوں پر 100 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے، دیگر صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہر صوبے کو چاہیے کہ وہ اپنا زرعی بینک قائم کرے۔

متعلقہ عنوان :