وزیر اعظم ‘ چیف جسٹس ملاقات کسی کیلئے نہیں بلکہ آئین و قانون اور انصاف کی بالا دستی کو یقینی بنانے کیلئے تھی ‘ سعد رفیق

افواج پاکستان کو سکیورٹی ،عدلیہ کو انصاف اور انتظامیہ کو ملک چلانے کیلئے ملنا چاہیے ، سیف الرحمان کے احتساب کا حامی نہیں ہوں نیب نے جو تفصیلات مانگی تھیں ان کا تحریری جواب دیدیا ہے ، آئندہ بھی جو سوالات پوچھے جائیں گے ان کا وقت پر جواب دیا جائے گا طعنے ،کھیل کھیلنے سے خرابی بڑھے گی ،پاکستان مڈ بھیڑ اور تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا ،پاکستان کو عام انتخابات کی طرف لیجانا چاہیے چیئرمین سینیٹ پہلے بن گئے ہیں او ران کیلئے پارٹی بعد میں بنائی جارہی ہے ، پی پی ،پی ٹی آئی اتحاد پر شرمانے والی کون سی بات ہے وفاقی وزیر ریلویز کی نیب میں پیشی کے بعدصوبائی زیر زعیم قادری کے ہمراہ ریلویزہیڈ کواٹرمیں پر ہجوم پریس کانفرنس

بدھ 28 مارچ 2018 16:20

اہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مارچ2018ء) وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ کوئی رعایت نہیں مانگ رہا ،وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ملاقات کسی کیلئے نہیں بلکہ آئین و قانون اور انصاف کو یقینی بنانے کیلئے تھی اور ا س پر شکر ادا کرنا چاہیے ،افواج پاکستان کو سکیورٹی ،عدلیہ کو انصاف اور انتظامیہ کو ملک چلانے کیلئے ملنا چاہیے ، سیف الرحمان کے احتساب کا حامی نہیں ہوں ،نیب کے کالے قانون کے معاملے پر دوسیاسی حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں،نیب نے جو تفصیلات مانگی تھیں ان کا تحریری جواب دیدیا ہے اور آئندہ بھی جو سوالات پوچھے جائیں گے ان کا وقت پر جواب دیا جائے گا،طعنے کوسنے ،کھیل کھیلنے سے ملک ٹھیک نہیں ہوگابلکہ خرابی بڑھے گی ،پاکستان مڈ بھیڑ اور تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا اور پاکستان کو عام انتخابات کی طرف لیجانا چاہیے ،چیئرمین سینیٹ پہلے بن گئے ہیں او ران کیلئے پارٹی بعد میں بنائی جارہی ہے ، اگر تحریک انصاف نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کر لیا ہے تو اس میں شرمانے والی کون سی بات ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی احتساب بیورو لاہور میں پیشی کے بعدپاکستان ریلویزہیڈ کواٹرمیں پر ہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر صوبائی وزیر زعیم حسین قادری بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نیب نے مجھے یاد کیا تھا اور میں لاہور آفس میں پیش ہوا تھا ۔ مجھے تحریری سوالنامہ بھی بھجوایا گیا تھا جس کا تحریری جواب جمع کر ادیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ میں نیب کی پیدائش سے لے کر آج تک نیب قانون کے خلاف ہوں اور اسے کالا قانون کہتا آیا ہوں ،دونوں سیاسی حکومتوں نے اس حوالے سے ذمہ دار پوری نہیں کی ۔ پاکستان میں جب بھی احتساب کا نعرہ لگا اس کے مقاصد وہ نہیں تھے جو بتائے گئے ۔ میرا میڈیا کے ایک بڑے حصے سے بھی بھی شکوہ ہے کہ جنہوں نے بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کے چکر میں میرا اورمیرے خاندان کا میڈیا ٹرائل کیا ۔

جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے اس میڈیا ٹرائل میں تیزی آرہی ہے اور مجھے بے رحمانہ نشانہ بنایا گیا ہے ۔ میرا خاندان وہ ہے جس نے قیام پاکستان اور اس کے بعد بے پناہ خدما ت سر انجام دی ہیں اور عجیب دور آ گیا ہے کہ ہمیں وہاں کھڑا کر دیا گیا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بات کرنی پڑ تی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی پلاٹ، پرمٹ، کوٹہ یا قرضہ نہیں لیا اور ہمارا اس پر یقین ہی نہیں او رجو محنت اورجدوجہد سے کمایا ہے اس کے حوالے سے حلف نامے کے ساتھ سپریم کورٹ او رنیب میں تفصیلات جمع کرا دی ہیںاور ہمارے پاس چھپانے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ایک چینل نے امیر ترین اور کرپٹ ترین ظاہر کیا ہے اور یہ جان بوجھ کر یا کسی کی ہدایت پر ہو رہا ہے ۔یہ سوچ لیا گیا ہے کہ سیاستدسانوں کے چہرے کوکالا کیا جائے او ریہ پیغام دیا جائے کہ یہ لوٹنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے ،ایسا کرنے والے لا علاج ہیں او ران کا کوئی علاج نہیں۔ میں اور میرے بھائی نے کبھی کسی کی سفارش نہیں مانی بلکہ بغیر تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے کے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا ہے ۔

ریلوے کے مردہ محکمے میں جان ڈالی ہے او رمیرا ضمیر مطمئن ہے ، جو محکمہ 18ارب روپے کماتا تھا تیس جون تک اس کی آمدن 50ارب روپے ہو جائے گی۔انہوںنے کہا کہ رگیدنا ، الزام لگانا، چور چو ر کہنا اورپیچھے سے ڈوریاں ہلانا اچھا کام نہیں اور اس کے کبھی بھی نتائج اچھے نہیں نکلے اس کا پاکستان کو فائدہ نہیں نقصان ہی ہوا ہے ۔ فرشتوں کی حکومت لانے کی اپروچ ہی غلط ہے ، آئین کی بالادستی او رقانون کی حکمرانی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ، ملک میں درجہ حرارت تیز ہے ، باہمی غلط فہمیاں بڑھی ہیں اور ہمارا دشمن ہم پر ہنس رہا ہے او رمسکرا رہا ہے،ہمیں اسے موقع نہیں دینا چاہیے ۔

ہم لڑیں گے او رنہ ہی الجھیں گے لیکن اپنے نظریات کے مطابق اپنی جدوجدہ جاری رکھیں گے۔ افرادتو مڈبھیڑ اور تصادم کے متحمل ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان اس کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اس میں کوئی نہیں جیتے گا بلکہ سب لوزر ہوں گے ، ریاست پاکستان کو عام انتخابات کی طرف لے جائیں اور عوام کو فیصلہ کر نے دیں او ر ان کے شعور پر اعتبار کرنا چاہیے ،کون آگے کون پیچھے اس سے ہم دو تین دہائیاں پیچھے چلے جائیں گے۔

انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی درخواست کی اور ان کی مہربانی کہ دو بڑوں کی ملاقات ہوئی اور یہ انتظامیہ ، عدلیہ کے وسیع تر مفاد میں ہے کیونکہ جب بات نہیں ہو گی تو فاصلہ بڑھ جائے گا اور اس سے جمہوریت کمز رہو گی ۔ جمہوری دور میں ہی عدلیہ کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی مجھے اس بارے علم نہیں لیکن یہ وزیر اعظم کا اقدام تھا اور چیف جسٹس نے بھی اعلیٰ ظفر کا مظاہرہ کیا ہے۔

کچھ لوگ اس ملاقات کے بھی مخالفت کر رہے ہیں حالانکہ انہیں شکر ادا کرنا چاہیے ، یہ ملاقات کسی کے لئے نہیں تھی بلکہ آئین و قانون انصاف کو یقینی بنانے کے لئے تھی اور اس کے بغیر ریاست کیسے آگے چل سکتی ہے ۔ افو اج پاکستان، عدلیہ ، ایگزیکٹو ایک پیج پر ہوں تو بہت بہتر ہے ،افواج پاکستان کو سکیورٹی عدلیہ کو انصاف اور انتظامیہ کو ملک چلانے کیلئے ملنا چاہیے ۔

کوئی رعایت مانگ رہا ہے اور نہ رعایت ملے گی ، ریاست چلانی ہے یا نہیں اگر فاصلہ ہے تو اسے ختم کرنا چاہیے ،آزاد عدلیہ سے ہی ملک کو آگے لے جاسکتے ہیں لیکن تنائو کی کیفیت درست نہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں سیف الرحمن کے احتساب کا شروع دن سے حامی نہیں ہوں ، ایسا نہیں ہے کہ میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو ،میں شروع دن سے اس قانون کا مخالف ہوں ۔ انہوںنے کہا کہ نواز شریف کا ظرف ہے کہ وہ غلطی مان لیتے ہیں اور غلطیوں سے سیکھتے ہیں اگر ہم نہیں سیکھیں گے تو پھر غلطی کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ جو نہ بولے وہ اچھا بچہ ہے اور جو بولے تو وہ بیڈ بوائے بن جاتا ہے ۔ انہوںنے نئی مسلم لیگ کے قیام اور کچھ لوگوں کے اس میں شمولیت بارے سوال کے جواب میں کہا کہ جنہیں جانے کی عادت ہے وہ جائیںگے کیونکہ جب ڈرم پیٹا جاتا ہے تو ان کے پائوں رقص پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یہ جانے پہچانے لوگ ہیں ۔ مسلم لیگ نام بڑا پسند ہے اور مسلم لیگ بنانے کی یہ پہلی کوشش نہیں ہوئی لیکن یہ مسلم لیگ چلتی نہیں،جو سیاسی عمل سے بنتی ہے وہی چلتی ہے ۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نواز شریف صاحب غلط فیصلے کرتے ہیں اور نہ کوئی ان سے کر اسکتا ہے ۔پارٹی میں فیصلوں پر بحث ہوتی ہے اوراکثریتی فیصلے کو ماناجاتاہے ۔ چوہدری نثار اور مسلم لیگ (ن) کو ایک دوسرے سے جدا ہونا چاہیے اور نہ کیا جا سکتا ہے اور کوشش ہے کہ یہ قربت دوبارہ ہو جائے کیونکہ ان کی پارٹی کیلئے بڑی خدمات ہیں ۔ انہوںنے عمران خان اور آصف زرداری اتحاد کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اس گٹھ جوڑ کا نقصان دونوںں کو ہوگا اور باری باری ہوگا ، اس کا نقصان عمران خان کو زیادہ ہوگا جبکہ آصف زرداری کو اتنا ہی ہوگا جتنا ان کے پلے کچھ ہے ،بہر حال یہ دونوں کے اپنے فیصلے ہیں،جب پی ٹی آئی نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لئے سلیم مانڈی والا کو ووٹ دیا ہے تو پھر اس اتحاد کو مان کیوں نہیں لیتے اور اس میں شرمانے والی کون سی بات ہے ۔

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جمہوری روایات نہیں، وہ چیئرمین سینیٹ پہلے بن گئے ہیں او ران کے لئے جماعت بعد میں بنائی جارہی ہے۔ بیشک پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کریں یا ایک ہی نشان پر انتخاب لڑیں لیکن مان تو لیں اور یہ چیزیں چھپ نہیں سکتیں۔