لاہور ،مجید نظامی اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ ساز شخصیت تھے،مقررین

منگل 3 اپریل 2018 21:44

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 اپریل2018ء) مجید نظامی اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ ساز شخصیت تھے۔اُنہوں نے ہمیشہ اصولوں پر مبنی صحافت کی اور کبھی قلم اور لفظ کی حرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔ مجید نظامی ؒ نظریہٴ پاکستان کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے اپنی زندگی اس نظریے کی ترویج و اشاعت کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ وہ بہت بڑے عاشق رسولؐ تھے۔

مجید نظامیؒ ہر جابر سلطان کے روبرو بے دھڑک کلمہٴ حق کہتے رہے۔مجید نظامیؒ کے وضع کردہ رہنما اصولوں کو بروئے کار لاکر ہم ایک متحد اور منظم ٹیم کے طور پر آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم عہد کرتے ہیں کہ ان کے مشن کو جاری رکھیں گے۔ان خیالات کااظہار مقررین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان ،لاہور میں رہبر پاکستان ‘ آبروئے صحافت اور نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مجید نظامیؒ کے 90ویں یوم ولادت کے موقع پر منعقدہ خصوصی تقریب کے دوران کیا ۔

(جاری ہے)

نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ نے اس دن کو یوم مجید نظامی کے طور پر منانے کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں وائس چیئرمین نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، چیئرمین تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد، مرحوم کے قریبی دوست جسٹس(ر) میاں آفتاب فرخ، چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان مجیب الرحمن شامی،چیف ایڈیٹر روزنامہ جرأت جمیل اطہر، ایڈیٹر ایڈیٹوریل روزنامہ نوائے وقت سعید آسی، چیف کوآرڈی نیٹر نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ میاں فاروق الطاف، ڈائریکٹر حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ ابصار عبدالعلی، ایڈیٹر رپورٹنگ روزنامہ 92نیوز میاں حبیب اللہ، مشیر وزیراعلیٰ پنجاب رانا محمد ارشد،گروپ ایڈیٹر روزنامہ الشرق ناصر اقبال خان، گولڈ میڈلسٹ کارکن تحریک پاکستان میاں ابراہیم طاہر، محمد اسلم زار ایڈووکیٹ، مولانا محمد شفیع جوش، کالم نگار محمد یٰسین وٹو، بیگم مہناز رفیع، پروفیسر ڈاکٹر پروین خان، بیگم خالدہ جمیل، غلام عباس میر، فاروق خان آزاد،کالم نگار و دانشور محمد رئوف طاہر، کالم نگار حامد ولید، سجادہ نشین آستانہٴ عالیہ چورہ شریف پیر سید احمد ثقلین حیدر چوراہی، انجینئر خالد بشیر،ذبیح اللہ، نواب برکات محمود، خالد شیخ ، سمیرا عتیق، انعام الرحمن گیلانی، منظور حسین خان ، مسز کشور باجوہ، رحیم خان، فدا حسین، انور چودھری، شیخ ثناء اللہ، محمد فیاض، صادق چودھری، عامر کمال صوفی، صابر چودھری سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

پروگرام کا باقاعدہ آغازتلاوت کلام پاک ،نعت رسول مقبولؐ اور قومی ترانہ سے ہوا۔ قاری خالد محمود نے تلاوت کلام پاک جبکہ اختر حسین قریشی نے نعت رسول مقبولؐ سنانے کی سعادت حاصل کی۔پروگرام کی نظامت کے فرائض سیکرٹری نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ شاہد رشید نے انجام دیئے۔تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان و چیئرمین نظریہٴ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ نے تقریب کے شرکاء کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ مجید نظامیؒ ایک سچے عاشقِ رسولؐ تھے ۔

مجید نظامیؒ اس ارضِ پاک کے بطل جلِیل تھے اور ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا روشن باب ہیں جس سے رہتی دنیا تک اہلِ حریت رہنمائی لیتے رہیں گے۔ مجید نظامی مرحوم ایک سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا پاکستان تھا۔ عہد حاضر میں وہ نظریہٴ پاکستان کے سب سے بڑے علم بردار اور پاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کے ایک عظیم داعی تھے۔

انہوں نے ساری زندگی خود کو اس مملکت خداداد کے اساسی نظریے کے تحفظ اور ترویج و اشاعت کیلئے وقف کئے رکھا۔کسی فوجی آمریا سول حکمران کا دبدبہ انہیں مرعوب نہ کر سکا۔ انہوں نے صحافتی زندگی کی ابتداء میں جن اصولوں کو حرزِ جاں بنایا تھا، تا دم آخر ان پر کاربند رہے۔ ان کی اصول پرستی کو تو ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ جابر سلطانوں کے روبرو کلمہ حق بلند کرنا ان کا طرہ ٴ امتیاز تھاچاہے اس کے بدلے انھیںکتنے ہی زیادہ مالی نقصانات کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔

قلم کی حرمت پر انہوں نے کبھی کسی حال میں سمجھوتہ نہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹرفیق احمد نے کہا کہ مجید نظامی ؒ سوفیصد اسلامی، پاکستانی اور نظریاتی انسان تھے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے ۔ مجید نظامیؒ ادارہ ساز شخصیت تھے، آپ نظریہٴ پاکستان کے محافظ اور عاشق تھے۔چیف جسٹس(ر) میاںمحبوب احمد نے کہا کہ مجید نظامیؒ اپنے اندر ایک ایسا نظام تھے جس کی بنیاد وطنیت، قومیت اور پاکستانیت تھی۔

مجید نظامیؒ نے اپنی زندگی نظریہٴ پاکستان کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لئے وقف کر رکھی تھی۔جسٹس(ر) آفتاب فرخ نے کہا کہ مجید نظامیؒ ایک قدآور صحافی ہی نہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی ، جغرافیائی اور آبی سرحدوں کے بھی محافظ تھے۔ ان کی ساری سوچ کا محور پاکستان کی حفاظت اور نظریہٴ پاکستان کی ترویج واشاعت تھی۔اس کے علاوہ ان کے دماغ میں کچھ نہیں تھا۔

میرے خیال میں ہر بڑے آدمی کی برسی کے بجائے سالگرہ منانی چاہئے کیونکہ ایسے لوگ مرتے نہیں بلکہ زندہ رہتے ہیں۔ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ مجید نظامی آج بھی ہمیں اپنے وجود کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ نظریہٴ پاکستان کے تحفظ اور اس کی ترویج واشاعت، ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔آج ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے باوجود لوگ سوچ رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

پاکستان کے آئین پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل کیا جائے اور کوئی پس پردہ کارروائیاں کرنے والے موجود نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مجید نظامی جیسا پاکستانی بننے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔میاں فاروق الطاف نے کہا کہ مجید نظامیؒ کی زندگی کا محور اسلام ، پاکستان ، قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ اورمسلم لیگ تھا۔

اس کے علاوہ ان کی زندگی میں کچھ نہیں تھا اور انہی کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی قربان کر دی۔ مجید نظامیؒ نے ہر ڈکٹیٹر ، وزیراعظم، وزیراعلیٰ ، گورنر کے سامنے کلمہٴ حق بلند کیا۔ جمیل اطہر نے کہا مجھے حمید نظامی اور مجید نظامی کے ماتحت کام کرنے کا موقع ملا اور یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔مجید نظامی نے جب نوائے وقت کی ادارت سنبھالی اس وقت نوائے وقت کا سورج غروب اور مالی حالت بہت خراب تھی ، ان حالات میں مجید نظامی نے راکھ کے اس ڈھیر پر پُر شکوہ عمارت تعمیر کر لی۔

حمید نظامی اگر نوائے وقت کے بانی ہیں تو مجید نظامی حقیقی معنوں میں اس کے معمار ہیں۔ مجید نظامی نے جتنے مصائب کا سامنا کیا اتنے مصائب شاید حمید نظامی کے دور میں نہیں آئے۔ حمید نظامی ایوب خان کے مارشل لاء دور میں گھٹن کا شکار ہوئے لیکن مجید نظامی نے ایسے کئی زخم اور چرخے اپنے دل پر برداشت کیے لیکن ان کے پایہٴ استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔

وہ ہمیشہ قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ ، مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی پیروی کرتے رہے۔ مجید نظامی قومی صحافت کا بانکپن تھے اور ان کی وجہ سے لفظ’ایڈیٹر‘‘کو عزت ملی۔ پاکستان 1947ء کو معرض وجود میں آیا تو اس ملک کی تعمیروبقاء کیلئے جن چیلنجز کا سامنا تھا اس سے بڑے چیلنجز سے آج ہم دوچار ہیں۔ اُس وقت پوری قوم متحد تھی لیکن آج قوم منتشر ہے۔

ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔سعید آسی نے کہا کہ آج ملک کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں مجید نظامیؒ جیسی قدآور شخصیت کی ضرورت ہے لیکن ان جیسا کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جنہیں دیکھ اور سن کر مجید نظامی اور شدت سے یاد آرہے ہیں ۔ شیخ حسینہ واجد نے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کی ، فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔

لیکن کون ایسی شخصیت ہے جو مجید نظامی جیسی جرأت و ہمت کے ساتھ کلمہٴ حق بلند کر سکی ۔ مجید نظامی طاغوتی طاقتوں اور آمروں کو چیلنج کیا کرتے تھے ۔ آج محلاتی سازشوں کا دوردورہ ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس نظام کیخلاف کوئی گٹھ جوڑ ہو رہاہے۔بدقسمتی سے ہر ایک مفاداتی سیاست کر رہا ہے۔رانا محمد ارشد نے کہا کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔

مجید نظامی پاکستان کے اساسی نظریے کے محافظ اور زندگی بھر اس نظریہ کی ترویج واشاعت کرتے رہے۔ وہ ایک انسٹی ٹیوٹ کا درجہ رکھتے تھے ۔ میاں حبیب اللہ نے کہا کہ مجید نظامی ؒ باوقار صحافت کے امین تھے ۔ انہوں نے صاف ستھری صحافت کی اور ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔ان کے رپورٹر کی خبر اگر حقائق پر مبنی ہوتی تو وہ اس کی خاطر حکمرانوں سے بھی ٹکرا جاتے تھے۔

آج بدقسمتی سے نظریاتی صحافت ختم ہو رہی ہے۔وہ قومی مفادات کے حقیقی ترجمان تھے۔ آج ان کے پائے کی کوئی شخصیت نظر نہیں آرہی ہے۔ ابصار عبدالعلی نے کہا کہ مجید نظامیؒ معاشرت، سیاست، صحافت کے بارے میں جچے تلے انداز میں سوچتے اور ان نظریات پر قائم رہتے تھے۔ وہ صحافت کے ہر پہلو پر نظر رکھتے تھے اس لحاظ سے انہیں میڈیا سائنٹسٹ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

انہوں نے صحافت کو وقار بخشااور ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہئے۔بیگم مہناز رفیع نے کہا کہ مجید نظامیؒ خواتین کی بڑی عزت و احترام کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے قائداعظمؒ کے ساتھ ساتھ ہمیشہ مادرملتؒ کا بھی ذکر کیا ۔ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائداعظمؒ کا پاکستان بنانے کے خواہاں تھے۔محمد اسلم زار ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج ہمیں مجید نظامیؒ بڑی شدت کے ساتھ یاد آرہے ہیں ۔

ہم میں کوئی شخص ایسا ہونا چاہئے جو ذاتی پسند و ناپسند سے ہٹ کر صرف قومی مفادات کی بات کرے۔ پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے کہا کہ مجید نظامی تصنع اور بناوٹ سے پاک انسان تھے۔ انہوں نے بھارتی آبی جارحیت کیخلاف بھرپور آواز اٹھائی۔وہ ہمیشہ قومی مفادات کے نگہبان رہے۔ بیگم خالدہ جمیل نے کہا کہ مجید نظامی ؒ صحافت کے درخشاں ستارہ تھے۔انہوں نے شعبہٴ صحافت میں ایسی روایات چھوڑی ہیں جو ہر صحافی کیلئے مشعل راہ ہیں۔

مولانا محمد شفیع جوش نے کہا کہ تحریک آزادئ ہند میں علی برادران اور تحریک و تعمیر پاکستان میں نظامی برادران کا کردار بڑا اہم ہے۔ مجید نظامی نے ہمیشہ کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کی اور وہ کشمیریوں کے حقیقی سرپرست ثابت ہوئے اور ان کی شخصیت کشمیریوں کیلئے شجر سایہ دار تھی۔ ناصر اقبال خان نے کہا کہ مجید نظامیؒ کی صحافت پاکستانیت کی علمبردار تھی۔

قائد ہونے کیلئے کردار ہونا شرط ہے ۔ مجید نظامی نے اپنے افکاروکردار سے قائدانہ کردار ادا کیا۔ ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانا چاہئے۔رئوف طاہر نے کہا کہ مجید نظامیؒ نے ہمیشہ جابر سلطان کے سامنے کلمہٴ حق بلند کیا۔وہ آئین کی سربلندی اور قانون کی کارفرمائی کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ آئین نے تمام اداروں کے اختیارات متعین کر دیے ہیں اور انہیں اس کے اندر رہ کر کام کرنا چاہئے۔

محمد یٰسین وٹو نے کہا کہ مجید نظامی ہمارے محب اور محسن تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے ۔انہوں نے بڑے بڑے آمروں کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔حامد ولید نے کہا کہ ایک ایڈیٹر اپنے اداریے کے ذریعے بولتا ہے ۔مجید نظامیؒ کے لکھے ہوئے اداریہ کا ایک ایک لفظ بڑا جاندار ہوتا تھا اور اس اداریہ کے ایک ایک جملے کی گونج ملک بھر میں سنائی دیتی تھی۔

غلام عباس میر نے کہا کہ مجید نظامی عظیم رہنما تھے ۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ زندہ رکھا اور ہر پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی۔شاہد رشید نے کہا کہ جودہ حالات میں مجید نظامیؒ کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامیؒ ایک نظریے اور تحریک کانام ہے اور نظریات اور تحریکیں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ ہم ڈاکٹر مجید نظامیؒ کی قائم کردہ اعلیٰ روایات کو محمد رفیق تارڑ اور تحریک پاکستان کے دیگر کارکنوں کی قیادت میں آگے بڑھا رہے ہیں۔

آج ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ مجید نظامیؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک وقوم کی خدمت کریں گے اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔پروگرام کے دوران ڈاکٹر مجید نظامیؒ کے 90ویں یوم ولادت کی مناسبت سے پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد، مجیب الرحمن شامی، جمیل اطہر، میاں فاروق الطاف و دیگر نے کیک کاٹنے کی رسم ادا کی۔ آخر میں صاحبزادہ پیر سید احمد ثقلین حیدر چوراہی نے مجید نظامیؒ کے ایصال ثواب اور بلندئ درجات کیلئے دعا کروائی۔

متعلقہ عنوان :