ججز کیخلاف ابتدائی تحقیقات بند کمرے اور دوسرا مرحلہ کھلی عدالت میں کیا جا سکتا ہے،سپریم کورٹ

سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی انتظامی نوعیت کی ہوتی ہے عدالتی نہیں، 2005 کے قوانین کے مطابق انکوائری کا طریقہ کار درست ،سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر فیصلہ سنادیا

جمعرات 10 مئی 2018 19:22

ججز کیخلاف ابتدائی تحقیقات بند کمرے اور دوسرا مرحلہ کھلی عدالت میں ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 10 مئی2018ء) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان کی جانب سے دائر اوپن کورٹ ٹرائل کی درخواستوں پر فیصلہ سنادیا جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی انتظامی نوعیت کی ہوتی ہے عدالتی نہیں، 2005 کے قوانین کے مطابق انکوائری کا طریقہ کار درست ،ججز کے خلاف ابتدائی تحقیقات بند کمرے میں ہوں گی اور تحقیقات کا دوسرا مرحلہ جج کی خواہش کے مدنظر رکھتے ہوئے کھلی عدالت میں کیا جا سکتا ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان کی جانب سے دائر اوپن کورٹ ٹرائل کی درخواستوں پر فیصلہ سنادیا۔

(جاری ہے)

جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دونوں فاضل ججز کے خلاف ریفرنسز کی کھلی عدالت میں سماعت کرنے کی درخواستوں کی سماعت کی۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی انتظامی نوعیت کی ہوتی ہے عدالتی نہیں اس لیے 2005 کے قوانین کے مطابق انکوائری کا طریقہ کار درست ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے خلاف ابتدائی تحقیقات بند کمرے میں ہوں گی اور تحقیقات کا دوسرا مرحلہ جج کی خواہش کے مدنظر رکھتے ہوئے کھلی عدالت میں کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے موجودہ کیس میں یہی استدعا کی گئی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل 18 مئی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے اور کسی بھی قسم کے دبا ئو کے بغیر اپنے فیصلے کا جائزہ لے۔یاد رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے خلاف دائر ریفرنس کو بند کمرے کے بجائے کھلی عدالت میں سننے کی استدعا کی تھی جسے سپریم جوڈیشل کونسل نے مسترد کردیا تھا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے جس میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سی ڈی اے حکام پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزین و آرائش کے لیے دبا ڈالا تھا۔