پاکستان اور بھارت کی رکنیت شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے مواقع اور دہشت گردی کے مقابلے کی استعداد میں وسعت کا باعث ہے،

ایس سی او کو 10ملکوں کی طرف سے مکمل رکینت، مبصر اور ڈائیلاگ پارٹنر بننے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں، شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل رشید علیموف کا ’’گلوبل ٹائمز‘‘ کو انٹرویو

پیر 17 ستمبر 2018 16:15

پاکستان اور بھارت کی رکنیت شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے مواقع اور دہشت ..
بیجنگ ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 ستمبر2018ء) پاکستان اور بھارت کی رکنیت نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم کے لئے مواقع اور دہشت گردی کے مقابلے کی استعداد میں وسعت کا باعث ہے بلکہ اس سے تنظیم کو اقتصادی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعاون کی نئی جہتیں ملی ہیں، یہ بات ایس سی او کے سیکرٹری جنرل رشید علیموف نے چینی اخبار’’ گلوبل ٹائمز‘‘ کو انٹرویو میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک اس وقت ایس سی او کا لازمی جزو بن چکے ہیں اور ان کو تنظیم سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایس سی او کے زیر اہتمام روس میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے فوجی مشقوں میں پاکستانی اور بھارتی فوجیوں کی شرکت کوئی انہونی بات نہیں۔ دونوں ملک تنظیم کے 29 مکینزمز کے تحت ایک دوسرے سے تعاون کرسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک 12 سال تک مبصر رکن رہنے کے بعد 2017ء میں تنظیم کے مکمل رکن بنے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، دونوں ممالک نے اگرچہ مبصر رکن کی حیثیت سے تنظیم کی فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن وہ تمام اعلی ٰ سطح کے اور سربراہ اجلاسوں میں شریک رہے ہیں، اب اگر ایس سی او ایک دریا ہے تو پاکستان اور بھارت اس کے معاون دریا بن چکے ہیں۔

مکمل رکنیت کے بعد دونوں ممالک کا تنظیم میں کردار بڑھ چکاہے اور وہ تنظیم کے فریم ورک کے اندر تعاون کی بھرپور استعداد رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کی مکمل رکنیت کے وقت تنظیم کو درپیش چیلنجز میں اضافے اور اس کی طاقت میں کمی کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوچکی ہیں۔تنظیم کی کسی بھی دستاویز پر دستخطوں کیلئے اس کے رکن آٹھ ممالک کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے اور چین نے تنظیم کی صدارت کے دور میں اس کے کام کے طریقہ کار کو سہل بنانے کے لئے بھرپور محنت کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس تنظیم کی طرف سے حاصل کی جانے والی کامیابیاں سب کے لئے غیر متوقع ہیں۔

تنظیم کے رکن ممالک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ، منشیات کی سمگلنگ، غذائی تحفظ کو یقینی بنانے، سیاحت، ترقی اور سب سے اہم اچھی ہمسائیگی، دوستی اور تعاون کے لئے پانچ سالہ ایکشن پلان کی منظوری کے لئے تعاون کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام آٹھ ملکوں کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ تمام پہلوں پر اتفاق رائے پر پہنچتے جو شنگھائی تعاون تنظیم کی نئی قسم کی عالمی تنظیم کے بطور طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں کسی رکن ملک کی آواز کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ سنی جاتی ہے اور اس پر غور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھارت اور پاکستان اس آرکسٹرا کا الگ نہ ہونے والاحصہ بن چکے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ ایس سی او ایک نئی طرز کی بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا دیگر تنظیموں سے بمشکل موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

چین اور روس کے درمیان پارٹنرشپ کے خطے اور عالمی سطح پر اثرات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چین۔روس پارٹنرشپ کے پوری دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑی عالمی طاقتوں کیلئے رول ماڈل بن چکا ہے، دونوں ممالک دنیا میں استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایس سی او ایشیا میں نیٹو نہیں، کیونکہ یہ فوجی بلاک نہیں ہے، ہماری حالیہ فوجی مشقوں کا اہم محور انسداد دہشت گردی رہا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایس سی او کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو 10ملکوں کی طرف سے مکمل رکینت، مبصر اور ڈائیلاگ پارٹنر بننے کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔