بھارتی وزیر نے جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی صحافی کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا

پریا رامانی نے مجھے بدنام کرنے کے لیے جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد الزمات لگائے، میری عزت کو نقصان پہنچایا ، وزیرخارجہ مبشر جاوید اکبر کا مقدمے میں موقف

پیر 15 اکتوبر 2018 23:53

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 اکتوبر2018ء) بھارت کے اسٹیٹ وزیر خارجہ مبشر جاوید (ایم جی)اکبر نے خود پر سب سے پہلے جنسی ہراساں کا الزام لگانے والی صحافی پریا رامانی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ درج کردیا۔بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ایم جے اکبر نے می ٹو مہم کے تحت جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی خاتون صحافی کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایم جے اکبر نے استعفی دینے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے وکلا ان الزامات پر قانونی کارروائی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ داخل کیے گئے ہتک عزت کے مقدمے میں ایم جے اکبر نے پریا رامانی پر الزام لگایا کہ انہوں نے جان بوجھ کر انہیں بدنام کرنے کے لیے جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد الزمات لگائے اور ان کی عزت کو نقصان پہنچایا اور خاتون صحافی کی وجہ سے انہیں بہت تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

قبل ازیں ایم جے اکبر نے کہا کہ کچھ افراد کے دوران یہ چیز بہت عام ہوگئی ہے کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے دوسروں پر الزام لگائیں لیکن جھوٹ کے پاں نہیں ہوتے تاہم اس میں زہر ہوتا ہے جو آپ کو نقصان پہنچات ہے۔خیال رہے کہ رواں ماہ 9 اکتوبر کو سب سے پہلے ایک صحافی خاتون نے ایم جے اکبر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف ایک ٹوئیٹ کی تھی۔

خاتون صحافی پریا رامانی نے دعوی کیا تھا کہ انہیں اسٹیٹ وزیر خارجہ نے اس وقت ہراساں کیا، جب ان کی عمر 23 سال اور ایم جے اکبر کی عمر 47 سال تھی۔بعد ازاں دیگر خواتین پریرنا سنگھ بندرا، غزالہ وہاب، شوتاپا پال، انجو بھارتی، سپرنا شرما، شوما راہا، مالینی بھپتا، کنیکا گاہلوٹ، کدمبری ایم ویڈ اور دیگر نے بھی ایم جے اکبر پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

اسٹیٹ وزیر پر زیادہ تر الزام لگانے والی خواتین وہ تھیں جنہوں نے ماضی میں ایم جے اکبر کے ساتھ کام کیا تھا۔واضح رہے کہ ایم جے اکبر سیاست میں آنے سے قبل صحافی تھے اور انہوں نے ہفت روزہ میگزین سنڈے گارجین کی بنیاد رکھی، علاوہ ازیں وہ متعدد اداروں میں اعلی عہدوں پر کام بھی کرتے رہے۔ان پر الزام لگانے والی زیادہ تر خواتین نے ان کے نازیبا رویے اور نامناسب حرکتوں سے پردہ اٹھایا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ ایم جے اکبر انہیں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے اور وہ انٹرویو کرنے والی زیادہ تر خواتین صحافیوں کو اپنے انتہائی قریب بیٹھنے، انہیں شراب نوشی کرنے اور بعد ازاں ان کے ساتھ رومانوی انداز میں بات کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے، جس وجہ سے خواتین خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتی تھیں۔

خواتین کی جانب سے اسٹیٹ وزیر سے بارے میں ایسے الزامات سامنے آنے پرمختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے ایم جے اکبر کے استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا اور اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی طلبہ تنظیم نے ان کے گھر کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔

متعلقہ عنوان :