06ہلاکتوں کے ساتھ 2018 شامی بچوں کے لیے بدترین سال تھا،یونیسف

یہ صرف ان بچوں کی تعداد ہے جن کی ہلاکت کی تصدیق اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کر پائے ہیں،رپورٹ

بدھ 13 مارچ 2019 15:00

برسلز (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مارچ2019ء) یورپی دارالحکومت برسلز میں جاری تیسری عالمی ڈونر کانفرنس برائے شام کے موقع پر یونیسف کی جاری کردہ اپیل میں کہاگیا ہے کہ 1106 ہلاکتوں کے ساتھ 2018 شامی بچوں کے لیے بدترین سال تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق یونیسف کی اپیل شام کے متحارب فریقوں، ہمسایہ ممالک (اردن، مصر، عراق، لبنان اور ترکی)، ہنگامی اور طویل المدتی انسانی امداد فراہم کرنے والی تنظیموں اور حکومتوں کو متنبہ کرتی ہے کہ شام کے بچے پہلے سے زیادہ مشکل صورت حال کا شکار ہیں۔

2018 اس حوالے سے بدترین سال تھا کہ جب 1106 بچے جنگ کا ایندھن بن گئے۔ یونیسف کا کہنا تھا کہ یہ صرف ان بچوں کی تعداد ہے جن کی ہلاکت کی تصدیق اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کر پائے ہیں ورنہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

2018 میں تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز پر 262 حملے ہوئے جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ شام کے لیے یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے کے مطابق بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ برس 434 بچے ہلاک اور شدید زخمی ہوئے۔

گزشتہ چند ہفتوں میں شمال مغربی شام میں تقریبا 59 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف شام کے شمال مشرق میں واقع الہول کیمپ میں 65000 لوگ موجود ہیں جن میں 240 لاوارث بچے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران، باغوز سے کیمپ تک 300 کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے 60 بچے ہلاک ہو گئے۔رپورٹ کے مطابق، 26لاکھ شامی ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں جو اتنی بڑی آبادی کو رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہیں لہذا چائلڈ لیبر، جنسی استحصال، اغوا اور نوعمری میں شادی جیسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔

یونیسف نے ڈونر کانفرنس سے اپیل کی کہ بچوں کے مفادات کو ترجیح دی جائے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کرتے ہوئے یہ مت دیکھا جائے کہ ان کا خاندان کس فریق سے تعلق رکھتا ہے۔ شام کے مصیبت زدہ خاندانوں اور ان کے بچوں کی ہنگامی اور طویل المدتی امداد اور بحالی کے لیے موجودہ سطح سے کہیں زیادہ مالی وسائل درکار ہوں گے۔برسلز میں جاری عالمی ڈونر کانفرنس میں شریک، بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم شامی تنظیم سے وابستہ ریاض نجم نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی مسائل کا شکار ہو چکی ہے خصوصا بے گھری اور پناہ گزینی کا شکار ہونے والے بچوں کا المیہ ناقابل بیان ہے۔

لاکھوں بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں اور جنگ نے ان کے دل و دماغ میں گہرا خوف پیدا کر دیا ہے۔ یہ بچے اپنے والدین یا دیگر اہل خانہ سے دوری کا کرب سہہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر، شہر ، گاؤں اور اسکول تباہ ہوتے دیکھے ہیں۔ یہ بچے ناامیدی اور یاسیت کا شکار ہو چکے ہیں، کچھ بے خوابی کا شکار ہیں، کچھ اچانک چیخنے لگتے ہیں اور کچھ بالکل خاموش ہو چکے ہیں۔

جنگ زدہ علاقوں اور کیمپوں میں بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔معروف عالمی تنظیم کاریتاس جرمنی کے فونسوا لانج کا کہنا تھا کہ شام کی ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کو مہاجرت اور بے گھری کا سامنا ہے۔ یہ لوگ بہت بری صورت حال میں، سہولیات سے محروم پلاسٹک کی خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ شام کے بچے امید کھو چکے ہیں۔ اسکول ہوں یا کھیل کے میدان، سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ بہت سے بچے دوران پیدائش یا نہایت کم عمری میں مر جاتے ہیں کیونکہ تربیت یافتہ دائیوں، صفائی ستھرائی اور بنیادی ادویات جیسی سہولیات میسر نہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کھانے کو خوراک ہی نہیں۔