ْسپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیوسکینڈل کے حوالے سے کیس میں فیصلہ مخفوظ کرلیا

منگل 20 اگست 2019 20:32

ْسپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیوسکینڈل کے حوالے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 اگست2019ء) سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیوسکینڈل کے حوالے سے کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ مخفوظ کرلیا ہے اورواضح کیا کہ کیس کافیصلہ ایک دوروز میں سنایا جائے گا اگرویڈیو سچ ثابت ہوگئی تواس کے اثرات ہوسکتے ہیں، جج ارشد ملک کی حرکت سے دیانتدار اور محنتی ججوں کے سرشرم سے جھک گئے ہیں ، دیکھناہوگا کہ ویڈیوکی فرانزک ہوسکتی ہے یانہیں۔

عدالت نے ویڈیوکافرانزک نہ ہونے پربرہمی کااظہا رکرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ سے ویڈیو کے حوالے سے ابہام پیدا ہوگیا ہے۔ منگل کوچیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس عمرعطابندیال پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت نے ویڈیو سکینڈل کی تحقیقات مکمل کرنے کیلئے 3 ہفتے کا وقت دیا تھا کیا تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں جس پرڈی جی ایف آئی بشیرمیمن نے پیش ہوکرعدالت کوبتایا کہ ویڈیوسکینڈل کی تحقیقات جاری ہیں جس کے مکمل ہونے میں مزید وقت لگ سکتاہے، تاہم ایف آئی اے نے مریم صفد راورشہباز شریف کے ابتدائی بیان ریکارڈ کرالئے ہیں جس میں شہباز شریف نے کہاکہ وہ جج ارشد ملک کے ویڈیوکے بارے میں کچھ جانتے ہیں نہ انہوں نے ویڈیو دیکھی ہے جبکہ انہیں مریم صفد ر نے ویڈیو کے بارے میں بتایا تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ اس معاملے میں 2 ویڈیوز کا معاملہ تھا، ایک ویڈیو وہ تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کیا گیا اور دوسری ویڈیو وہ تھی جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ہمیں بتایا جائے کہ کیا وہ شخص سامنے آیا جس نے ارشد ملک کو تعینات کرانے کادعوٰی کیا تھا توڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ اصل افراد ملک سے باہر ہیں ہم اس معاملے کی مزید تحقیقات کرنا چاہتے ہیں ، سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ارشد ملک کی ویڈیو کا فرانزک تجزیہ کرالیا گیاہے تو ڈی جی بشیرمیمن نے بتایا کہ وہ ویڈیو ا یف آئی ا ے کے پاس نہیں۔

(جاری ہے)

جس پرفاضل جج نے کہا کہ وہ ویڈیو سوائے ایف آئی اے کے پورے پاکستان کے لوگوں کے پاس ہے، پورا ملک اور عدالت ایک ہی سوال پوچھ رہی ہے، کیا وہ ویڈیو صحیح ہے یانہیں ، جس پرڈی جی نے کہا کہ مذکورہ ویڈیو کا فرانزک نہیں ہوا، سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو ویڈیو کا فارنزک کرانے کی یقین دہانی کرائی اور بتایا کہ اس معاملے پرکام ہورہا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ ایف آئی اے کی رپورٹ سے معاملے کے بارے میں ابہام پیدا ہوا ہے، غالباً اس میں 2 ویڈیوز شامل تھیں،ایک ویڈیو قابل اعتراض تھی جس کے ذریعے جج کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی، دوسری ویڈیو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قانونی فائدہ اٹھانے کیلئے کسی نے عدالت میں کوئی درخواست دی ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت میں اس حوالے سے کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی ہے توچیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کی کاپی کا فرانزک ہوسکتا ہے یانہیں، سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ جنہوں نے یہ کہانی بنائی وہ اس سے لاتعلق ہوگئے ہیں جبکہ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ویڈیو اصل ثابت ہوگی تو کافی اثرانداز ہوگی، جج ارشد ملک کا ایک ماضی ہے جسے وہ مان رہے ہیں، انہیں تو کوئی بھی بلیک میل کرسکتا ہے، جس شخص کواس نے سزا دی ہے اس کے گھرچلے گئے، اس کے بیٹے سے ملنے سعودیہ چلے گئے، آخر کیوں ارشد ملک کی اس حرکت سے ہزاروں دیانتدار اور محنتی ججوں کے سرشرم سے جھک گئے ہیں لیکن اس معاملے کو ہلکا نہ لیا جائے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیاکہ ارشد ملک کی خدمات کو لاہور ہائیکورٹ کو واپس کیوں نہیں کرتے، تواٹارنی جنرل نے بتایاکہ تحقیقات کی وجہ سے ارشد ملک کو روک رکھا ہے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کیا جج ایسا ہوتا ہے جو سزا دینے کے بعد مجرم کے پاس چلا جاتاہے ، ہمارا تعلق اپنے جج سے ہے، جس کے کردار پر بہت سے سوال اٹھ گئے ہیں، جج نے بہت سی چیزیں حلف نامے اور پریس ریلیز میں بتائیں، نہ جانے کس نے جج صاحب کو یہ مشورہ دیا تھا کیونکہ جج خود مان رہا ہے کہ اس کے اس خاندان کے ساتھ تعلقات تھے، تاہم عدالت جج کے کردار کی حد تک معاملہ دیکھ سکتی ہے جس پراٹارنی جنرل کاکہناتھا کہ اس ویڈیو کو اصل ثابت کرنا بہت مشکل کام ہوگا۔

چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ ویڈیو معاملہ ماہرین سے کلیئر کرایا جائے کہ کیا فارنزک ہوسکتا ہے یا نہیں، کیونکہ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ آڈیو ریکارڈنگ الگ کی گئی، لگتا ہے ویڈیو کے ساتھ کسی نے کھیل کھیلا ہے ۔ بعدازاں عدالت نے قراردیا کہ کیس کی سماعت مکمل ہوگئی جس کا فیصلہ دو تین روزمیں سنایا جائے گا۔