کپاس کا زیر کاشت رقبہ اور پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے،میاں زاہد حسین

ْکسانوں کی عدم دلچسپی ٹیکسٹائل کے شعبہ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

بدھ 11 ستمبر 2019 22:40

کپاس کا زیر کاشت رقبہ اور پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے،میاں زاہد حسین
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 ستمبر2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کپاس کی کاشت میں کسانوں کی دلچسپی کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے اس اہم فصل کا زیر کاشت رقبہ اور پیداوارکم ہو رہی ہے جو ملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبہ ٹیکسٹائل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

کپاس کے شعبے کیلئے مراعات اور امدادی قیمت کا اعلان کاشتکاروں کی دلچسپی بڑھا دے گا جس سے پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی سے ٹیکسٹائل کے شعبہ کی درآمدات پر انحصار بڑھانا ہو گا جس سے پیداواری لاگت بڑھ جائے گی۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ 2018-19 میںگزشتہ سال کے مقابلہ میں کپاس کے زیر کاشت رقبہ میں 12.1 فیصد کمی آئی ہے جبکہ پیداوار میں 17.5 فیصد کمی آئی ہے۔

گزشتہ سال کپاس کی پیداوار صرف 9.9 ملین گانٹھ رہی ہے جبکہ2017-18 میں پیداوار 11.94 ملین گانٹھ اور 2014-15 میں 13.96 ملین گانٹھ تھی۔انھوں نے کہا کہ حکومت نے 2019-20 کے لئے کپاس کی پیداوار کا ہدف15 ملین گانٹھ مقرر کیا ہے جس کا حصول کاشتکاروں کی عدم دلچسپی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ناممکن ہے۔انھوں نے کہا کہ65 فیصد کپاس پنجاب میں پیدا ہوتی ہے جبکہ80 فیصد کپاس بی ٹی کاٹن پر مشتمل ہے جسے کیڑوں اور بیماریوں سے پاک قرار دے کر روشناس کروایا گیا تھا جبکہ زمینی صورتحال یہ ہے کہ مختلف کیڑوں کے حملے بھی سالانہ تقریباً40 لاکھ گانٹھ تک کپاس ضائع کر دیتے ہیں جس سے نمٹنے کے لئے مناسب مکینزم موجود نہیں ہے۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوںکو اس سلسلہ میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ کاشتکارمنافع کی کمی اور بڑھتے ہوئے نقصانات کی وجہ سے دیگر فصلوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس رجحان کو روکنے کے لئے انکے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو نقصان ہو گا جس سے برآمدات بھی متاثر ہونگی۔