بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات واش رومز میں جانے کو بھی کترانے لگیں

خفیہ کیمروں سے بلیک میلنگ کے معاملے میں سب سے زیادہ مسئلہ ہاسٹل میں رہائش پذیر طالبات کو ہے، واش رومز میں خفیہ کیمرے نصب ہونے کا پتہ چلنے کے بعد وہ وہاں جانے سے سے بھی کتراتی ہیں۔طالبہ

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعہ 18 اکتوبر 2019 17:40

بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات واش رومز میں جانے کو بھی کترانے لگیں
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 اکتوبر 2019ء) : بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمروں کے ذریعے سے طالبات کو ہراساں کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد طالبات میں ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگیں۔اسی حوالے سے اب بتایا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے معاملے کی مزید انکوائری شروع کر دی ہے اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی تفتیش کی ہے۔

اس کے بعد سے بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں جب کہ سوشل میڈیا پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔ایک طالبہ کا کہنا ہے کہ ہراسانی کے واقعات نے یونیورسٹی انتظامیہ کی خامیوں اور طالبات کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا۔ہراسانی کی خبروں کے بعد ہاسٹل میں رہائش پذیر لڑکیاں اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتی ہیں جب کہ کئی طالبات کے والدین نے تو انہیں ہاسٹل سے گھر بلانا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

سب سے زیادہ مسئلہ ہاسٹل میں رہائش پذیر طالبات کو ہے جنہوں نے سن رکھا ہے کہ واش رومز میں خفیہ کیمرے نصب تھے اور اب وہاں جانے سے سے بھی کتراتی ہیں۔جب کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی میں بھی صرف دو خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔مزید بتایا گیا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں 42 سے 50فیصد طالبات ہاسٹل میں رہتی ہیں جن کا تعلق تربت، خاران،قلات اور پنجگور خاندان سے ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان کی یونیورسٹی میں طلباء کو بلیک مل کرنے اور ہراساں کرنے کا انکشاف ہوا تھا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ٹیم نے گذشتہ ماہ سکینڈل بے نقاب کیا تھا جس میں یونیورسٹی کے طالب علموں کو ویڈیوز کے ذریعے سے بلیک میل کیا جاتا تھا۔ بلیک میلنگ کے لیے یونیورسٹی بلاکس میں خفیہ کیمرے لگائے گئے تھے۔ ذرائع ایف آئی اے کے مطابق اس سلسلے میں یونیورسٹی سیکیورٹی برانچ کے افسر اور سرویلنس انچارچ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سیکیورٹی سرویلنس سیکشن اہلکاروں نے طلبا کو بلیک میل کیا۔گرفتار اہلکاروں سے ہراساں کرنے اور بلیک ملینگ کی ویڈیوز برآمد ہوئی تھیں۔ یونیورسٹی کے 200اہلکاروں ملازمین سے تفتیش جاری ہے۔ ایف آئی اے کی کاروائی کے بعد کئی متاثرہ لڑکیوں سے رجوع کیا۔ اس متعلق تفتیش کی جا رہی ہے کہ اسکینڈل میں یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار تو ملوث نہیں؟۔وائس چانسلر کے اسٹاف آفیسر سے بھی تفتیش کے دوران نازیبا مواد برآمد ہوا ہے۔ بلیک میل کیے گئے طلبا میں زیادہ تعداد طالبات کی ہے