عورت اور مرد میں فرق کا کلچر گھرسے شروع ہوتا ہے ‘ "حقوق نسواں کو سمجھنا" کے موضوع پر منعقدہ سیمنار سے مقررین کا خطاب

اتوار 24 نومبر 2019 23:25

کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 نومبر2019ء) مذہب، قانون اور دستور میں انسان کے درمیان فرق نہیں تاہم ہم نے اپنے معاشرے کے اندر مرد اور عورت میں فرق پیدا کر دیاہے ، فرق کو پروان چڑھانے میں عورت اور مرد دونوں شامل ہیں، اس کلچر کو سب سے پہلے گھر میں تقویت دی جاتی ہے، عورت شادی کے بعد سب سے پہلے بچے کی خواہش کرتی ہے جبکہ ماں کھانا پہلے لڑکے کو کھلاتی ہے، عورت کے ساتھ تخصیص یہاں سے شروع ہو کر معاشرے میں جاتا ہے جہاں اس کی جڑیں گہری ہو جاتی ہے،عورت کے ساتھ تخصیص یہاں سے شروع ہو کر معاشرے میں جاتا ہے جہاں اس کی جڑیں گہری ہو جاتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی "حقوق نسواں کو سمجھنا" کے موضوع پرمنعقدہ تقریب سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

مہتاب اکبر راشدی نے موضوع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ابھی تک کوئی حقوق نسواں کو سمجھا ہی نہیںہے ، ہم مغربی ممالک سے آنے والی ہر چیز کو بنا سوچے سمجھے قبول کرلیتے ہیں ، مغربی ممالک کی بہ نسبت پاکستان میں خواتین کو سب سے پہلے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے، جب خواتین نے جارحانہ انداز اپنایا تو اس مردوں کا ردعمل آیا ۔

معاذ احسن نے کہاکہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ پلے کارڈ سے معاشرے میںکھلبلی سی مچ گئی ہے، مذہب، نسل، رنگ، جنس کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق نہیں کرنی چاہئے جس کی ابتداء ہمیں اپنے گھر سے کرنی ہوگی۔درید قریشی نے کہاکہ خواتین کے معاملے میں ہم بہت حساس ہیں، ڈراموں میں خواتین کو کمزور دکھانے کا الزام غلط ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ خواتین مردوں سے زیادہ بہتر انداز میں کام کررہی ہیں۔

جبران ناصر نے کہاکہ ہمیں ذہن سازی کے لئے بیٹے اور بیٹی کو برابری کی سطح پر دیکھنا ہوگا، آپ کسی کو دیکھ کر نہیں بتا سکتے کہ ذہین ہے یا بیوقوف، آج میں جس مقام پر ہوں اس میں خواتین کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ قطرینہ حسین نے کہاکہ میں جب پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی ہر عورت مظلوم ہے۔ تقریب میں اراکین گورننگ باڈی سید سعادت علی جعفری، ڈاکٹر ایوب شیخ ، اقبال لطیف، سید اسجد بخاری، کاشف گرامی ،ڈاکٹر ہما میرایگزیکٹوو ڈائریکٹر ندیم ظفر بھی موجود تھے ۔