شارجہ میں لاک ڈاؤن کی پابندی میں بھی پاکستانی ماں بیٹیوں کو چھت نصیب نہ ہو سکی

28 سالہ عظمیٰ فاروق اپنی بوڑھی والدہ اور چھوٹے بہن بھائیوں سمیت سڑکوں اور پارکوں میں رات گزارنے پر مجبور ہو گئی ہے

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 4 اپریل 2020 17:30

شارجہ میں لاک ڈاؤن کی پابندی میں بھی پاکستانی ماں بیٹیوں کو چھت نصیب ..
شارجہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔4 اپریل 2020 ء) متحدہ عرب امارات اس وقت کورونا وائرس کی مہلک وبا کی لپیٹ میں ہے جس کے باعث مقامی اور تارکین وطن اپنے اپنے گھروں میں بند ہو گئے ہیں ۔ اماراتی حکومت کی جانب سے بھی ڈس انفیکشن مہم کے باعث لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ مگر شارجہ میں مقیم ایک پاکستانی خاندان ایسا بھی ہے جو خود کو کورونا سے بچانے کے معاملے میں بالکل بے بس ہے۔

چار افراد کے اس پاکستانی خاندان میں 28 سالہ عظمی فاروق ، اس کی بزرگ والدہ خالدہ فاروق اور دو چھوٹے بہن بھائی رابعہ اور بلال فاروق شامل ہیں۔ خلیج ٹائمز کی اس درد بھری خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بے گھر افراد گزشتہ ایک ماہ سے پارک کے بینچز، مساجد حتیٰ کہ ہسپتالوں کے کوریڈورز میں وقت گزاری پر مجبور ہو گئے تھے۔

(جاری ہے)

تاہم شارجہ میں رات کے وقت کے جزوی کرفیو کے باعث اب اس بے کس خاندان کی زندگی مزید قابل رحم ہو چکی ہے۔

انہیں سر چھُپانے کی جگہ میسر نہیں آ رہی۔ عظمیٰ نے بتایا ”ہمیں کپڑے بدلے ہوئے بھی کئی روز ہو چکے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس نہانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم نے کئی روز سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ مگر ہماری سب سے بڑی تکلیف بزرگ والدہ سے متعلق ہے۔ جو اتنی کمزور ہیں کہ زیادہ دیر تک کھڑی رہ سکتی ہیں اور نہ بیٹھ سکتی ہیں۔ وہ پہلے ہی دل کی مریضہ ہیں اُوپر سے ان بھیانک حالات میں ان کی صحت اور بگڑ رہی ہے۔

جبکہ کورونا کے خدشے نے انہیں فکر مندی کے مرض میں لاحق کر دیا ہے۔ ان کی قوت مدافعت بہت کمزور ہے۔“ ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی عظمیٰ نے بتایا کہ وہ شارجہ کے علاقے رولا میں ایک اپارٹمنٹ میں مقیم تھے، تاہم خراب معاشی حالات کے باعث انہیں وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔ جس کے بعد عظمیٰ کی ایک سہیلی نے انہیں دو ہفتوں تک اپنے پاس ٹھہرائے رکھا۔

مگر جب کورونا کے مریضوں کی گنتی میں اضافہ ہونے لگا تو اس کی سہیلی نے کہہ دیا کہ وہ اپنا ٹھکانہ کہیں اور کر لے کیونکہ اس کا اپارٹمنٹ بہت چھوٹا تھا جس میں پہلے ہی بہت سے لوگ مقیم تھے۔عظمیٰ کا کہنا تھا ”ہمارا خاندان سیالکوٹ میں ایک اچھی زندگی گزار رہا تھا۔میرے والدہم سے بہت پیار کرتے تھے اور ہمیں اچھی تعلیم دلا کر بہترین مستقبل دینے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔

بدقسمتی سے ایک کار ایکسیڈنٹ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ ہم اپنے والد کے بھائیوں کے ساتھ مشترکہ گھر میں مقیم تھے، مگر والد کی حادثاتی موت کے بعد ان کے بھائیوں نے رشتے کا خیال کیے بغیر والد کے حصّے کی جائیداد بھی ہڑپ کر لی اور ہمیں گھر سے زبردستی نکال دیا۔ اس وقت ہم بہن بھائیوں کی عمر بہت کم تھی۔ ان بُرے حالات کے باعث میں آج سے تین سال قبل اپنے خاندان کی کفالت کے لیے متحدہ عرب امارات آ گئی۔

اس مہربان ملک میں مجھے شارجہ کی ایک پرفیوم کمپنی میں سیلز پروموشن کی نوکری مل گئی۔ جس کے ہمارے حالات بہتر ہونے لگے۔ کچھ عرصہ بعد میری چھوٹی بہن رابعہ بھی میرے پاس آ گئی۔ وہ یہاں ایک ڈے کیئر میں آیا کی نوکری کررہی تھی۔کچھ ماہ پہلے میں نے اپنے چھوٹے بھائی بلال کو بھی یہیں بُلالیا۔ جس نے ایک موبائل ریپرنگ کی دُکان میں نوکری کرنے کے لیے ایجنٹ کو ورک ویزہ کے لیے رقم دی۔

مگر یہ ایجنٹ دھوکے باز نکلا اور ویزے کے لیے دی گئی رقم ہتھیا کر فرار ہو گیا۔ جس کے باعث ہمیں مالی نقصان بھی اُٹھانا پڑا اورمیرے بھائی کو ملازمت بھی نہ مِل سکی۔ کچھ عرصہ بعد ہماری بھی نوکریاں چلی گئیں۔ اس مُدت میں ہسپتال میں والدہ کی بیماری پر بڑی رقم خرچ ہوئی جس کے بعد ہم پائی پائی کے محتاج ہو گئے۔ یہاں تک کہ ہمیں کرائے کی ادائیگی نہ کرنے پر اپارٹمنٹ سے بے دخل کر دیا گیا۔

مجھے میری سہیلی نے کچھ دن پناہ دی۔ تاہم کورونا کی وبا کے بعد ہمیں اس نے گھر چھوڑنے کا کہہ دیا۔ کچھ وقت تو مساجد، مالز اور ہسپتالوں کے کوریڈورز میں نکال لیا۔ہسپتال کا عملہ، سیکیورٹی گارڈز اور دیگر لوگوں نے ہمیں روٹی بھی مہیا کی اور رات گزارنے کی بھی اجازت دی۔ مگر لاک ڈاؤن کے دوران مساجد اور مالز کے بند ہو جانے کے بعد ہماری زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔

خصوصاً رات آٹھ بجے کرفیو نافذ ہونے کے بعد ہمیں کہیں بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں مِل رہی۔“ عظمیٰ نے متحدہ عرب امارات میں مقیم مخیر اور درد مند افراد سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے مشکل وقت میں ان کا سہارا بنیں۔ ہمیں یقین ہے کہ جب دوبارہ مارکیٹس کھُلیں گی تو ہمیں پھر سے ملازمتیں مل جائیں گی۔ مگر ہمارا موجودہ وقت بہت تکلیف دہ ہے، خصوصاً جب سر چھُپانے کے لیے چھت بھی نہ ہو۔ ہم بہت بڑی ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، اسی وجہ سے ہم کئی روز سے سو بھی نہیں سکے۔