ڈاؤ یونیورسٹی نےانسانی جینز میں کورونا کو غیرمئوثر کرنےوالی تبدیلیوں کا پتا لگا لیا

انسانی جینز میں قدرتی تبدیلیوں کوجاننے کیلئےایک ہزار انسانی جینز کا تجزیہ کیا گیا، ان تبدیلیوں کی مدد سے کورونا غیرمئوثر ہوسکتا ہے، تحقیق سے طبی وسائل کے تعین میں مدد ملے گی۔ وائس چانسلر یونیورسٹی کی ٹیم کومبارکباد

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 9 اپریل 2020 17:00

ڈاؤ یونیورسٹی نےانسانی جینز میں کورونا کو غیرمئوثر کرنےوالی تبدیلیوں ..
کراچی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 اپریل 2020ء) ڈاؤ یونیورسٹی نے انسانی جینز میں کورونا کو غیرمئوثر کرنے والی تبدیلیوں کا پتا لگا لیا، نسانی جینز میں قدرتی تبدیلیوں کوجاننے کیلئے ایک ہزار انسانی جینز کا تجزیہ کیا گیا، تحقیق سے کورونا وائرس کیخلاف طبی وسائل کے تعین میں مدد ملے گی۔ تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام سے لے کر وائرس پر قابو پانے کیلئے دنیا میں بھرکی لیبارٹریز میں تجربات کیے جا رہے ہیں، تاکہ یکسین اور دوائی کی تیاری کرکے وائرس کو ڈیڈ کرکے انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔

ایسے ہی پاکستان کی یونیورسٹیز بھی اپنی لیبارٹریز میں تحقیق کررہی ہیں کہ کس طرح وائرس پر قابو پایا جاسکتا ہے، اسی طرح ہماری یونیورسٹیز نے سینیٹائرز بھی تیار کیے، کٹس اور وینٹی لیٹرز کے حوالے سے بھی تجربات کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم اس کے ساتھ ڈاؤ یونیورسٹی نے تحقیق سے انسانی جینز میں موجود2 قدرتی تبدیلیوں کا پتا لگا لیا ہے، یہ تبدیلیاں کورونا وائرس کو غیرمئوثر کرسکتی ہیں۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کسی انسان میں ایک یا دونوں تبدیلی کی موجودگی میں کورونا غیرمئوثر ہوسکتا ہے۔انسانی جینز میں تبدیلیوں کا پتا لگانے کیلئے ایک ہزار انسانی جینز کا تجزیہ کیا گیا۔ تحقیق بین الاقوامی سائنسی جریدے جرنل آف میڈیکل وائرالوجی میں شائع ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر مشتاق حسین نے بتایا کہ تحقیق سے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے طبی وسائل کے تعین میں مدد ملے گی۔

کورونا سے متعلق تحقیق ڈاؤ کالج آف بائیوٹیکنالوجی کے وائس پرنسپل کی سربراہی میں طلباء اوراساتذہ کی ٹیم نے کی ہے۔ ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق اسکریننگ کے دوران لیے گئے ٹیسٹ سیمپل سے ہی مذکورہ جییناتی تغیرات کی موجودگی کا بھی علم ہوسکتا ہے، ان دونوں یا کسی ایک تبدیلی کی موجودگی سے کورونا وائرس کی علامات میں شدت آنے کے امکانات کم ہوجائیں گے، اس صورت میں کورونا سے متاثرہ شخص کو محض گھر کے ایک کمرے میں قرنطینہ کی ضرورت ہوگی جبکہ دوسری صورت میں کورونا سے متاثرہ شخص کو دواں کے ساتھ اسپتال کے آئسولیشن وارڈ اور وینٹی لیٹر کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔

ڈاؤ کالج آف بائیوٹیکنا لوجی کے وائس پرنسپل ڈاکٹرمشتاق حسین کی سربراہی میں کام کرنے والی طلباء اور اساتذہ کی ٹیم نے ایک ہزار انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کرکے معلوم کیا کہ اے سی ای ٹو(اینجیو ٹینسن کنورٹنگ انزائم ٹو) نامی جین میں ہونے والے دو تغیرات ایس انیس پی اور ای تھری ٹو نائن جی کورونا کی راہ میں مزاحم ہوسکتے ہیں کیونکہ کورونا کا باعث بننے والا سارس کووڈ ٹو انفیکشن کے ابتدائی مرحلے میں اے سی ای ٹو(اینجیو ٹینسن کنورٹنگ انزائم ٹو) سے ہی جاکر جڑتا ہے۔

ریسرچ ٹیم میں ڈاکٹرنصرت جبیں ، فوزیہ رضا، ثانیہ شبیر،عائشہ اشرف بیگ ،انوشہ امان اللہ اور بسمہ عزیز شامل تھے ،نے ایکس ٹینسو اسٹرکچرل اور ڈاکنگ ٹیکنیکس کے ذریعے پیش گوئی کی ہے مذکورہ اے سی ای ٹو میں قدرتی طور پر مذکورہ دو تغیرات کی موجودگی نوول کوروناوائرس کی راہ میں مزاحم ہوسکتی ہے اس تحقیق سے اس کی تشخیص اور علاج کی امکانی راہ تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ طبی وسائل کا بہتر تعین کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔

ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق حسین نے بتایاکہ ڈیٹا مائننگ میں جن انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کی گئی ان میں چین ، لاطینی امریکا اور بعض یورپی ممالک شامل تھے یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ مذکورہ تجزیے میں اے سی ای ٹو میں مذکورہ تغیرات کی شرح نہایت کم پائی گئی۔