ابتدا میں سرد اور خشک علاقے کورونا وائرس کی حالیہ وبا سے زیادہ متاثر ہوئے، برطانوی ماہرین

جمعرات 9 اپریل 2020 18:09

لندن۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اپریل2020ء) برطانوی طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اگرچہ اس وقت کورونا وائرس کی وبا دنیا کے تمام حصوں میں پھیل چکی ہے لیکن اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ ابتدا میں سرد اور خشک علاقیاس وبا سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔کورونا وائرس کے 40 سے زیادہ کیسز والے چین کے ایک سو شہروں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن مقامات پردرجہ حرارت اور ہوا میں نمی کا تناسب قدرے زیادہ تھا وہاں متاثرہ افراد سیکورونا وائرس کی دیگر افراد میں منتقلی کی شرح بھی کم رہی۔

ایک اور تحقیق کے مطابق 23 مارچ تک کورونا وائرس اگرچہ دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیل چکا تھا تاہم سرد اور خشک مقامات پر اس کے کیسز کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے ماہرین کے مطابق اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ کورونا وائرس ہر طرح کے موسمی حالات جن میں سرد اور خشک سے لے کر گرم اورمرطوب آب و ہوا والے خطے شامل ہیں میں پھیل چکا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق جنوبی اور شمالی نصف کرہ کے ممالک میں دیگر اقسام کے وائرس سے ہونے والے وبائی امراض جن میں فلو بھی شامل ہے کے پھیلنے کا انداز مختلف رہا ہے تاہم خط استوا کے ممالک میں وبائی امراض کے پھیلنے کا ایک جسا پیٹرن نہیں دیکھا گیا چناچہ خط استوا کے قریب واقع دو ممالک ملائیشیا اور جمہوریہ کانگو میں اس وبا کے پھیلنے کی رفتار اور انداز مختلف ہے۔

ماہرین کے مطابق آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جن میں جنوبی کرہ میں واقع ہونے کے سبب گرمی کا موسم ہے میں کورونا وائرس کے نسبتاً کم کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیلانے والے دیگر عوامل میں مختلف علاقوں کا گنجان آباد ہونا اور خریداری کے اورکارو باری مراکز میں لوگوں کی بھیڑ بھی شامل ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ کورونا وائرس ابتدا میں لوگوں کے مختلف مقامات کی طرف سفر کرنے کے نتیجہ میں پھیلا ہے۔

یونیورسٹی کالج آف لندن کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیگر کورونا وائرس جو 2002 ء اور2012 ء میں وبائی صورت اختیار کر چکے ہیں وہ سرد موسم میں ہی سامنے آئے خاص طور پر ایسے موسم میں جس میں لوگوں کی بڑی تعداد فلو سے متاثر ہوتی ہے۔یونیورسٹی کالج آف لندن کے ایلن فراگیسی کا کہنا ہے کہ تمام اعداد و شمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان ہے موسم گرما میں کورونا وائرس کے نسبتاً کم کیس سامنے آئیں تاہم اس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

نیا کورنا وائرس جس کو ایس اے آر ایس۔ سی او وی۔2 کا نام دیا گیا ہے تقریبا اسی انداز میں پھیلا ہے جس میں اس کے پیش رو 2002 ء اور2012 ء میں وبائی صورت اختیار کر چکے ہیں تاہم دونوں مرتبہ ان سے جانی نقصان اس مرتبہ کے مقابلے میں کہیں کم ہوا تھا۔یونیورسٹی آف سائوتھیمپٹن کے ڈاکٹر مائیکل ہیڈ کا کہنا ہے کہ نئے کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار پر موسم کی تبدیلی کے حقیقی اثرات موسم تبدیل ہونے پر ہی معلوم ہو سکیں گے۔