پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھانے اور مردوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے سے سانحہ موٹروے جیسے واقعات کم ہو سکتے ہیں، پولیس اصلاحات کی ضرورت ہے

وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا قومی اسمبلی میں لاہور واقعہ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اظہارخیال

پیر 14 ستمبر 2020 21:30

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 ستمبر2020ء) وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھانے اور مردوں کی ذہنیت کو تبدیل کرنے سے سانحہ موٹروے جیسے واقعات کم ہو سکتے ہیں۔ پیر کو قومی اسمبلی میں لاہور واقعہ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ عورت کو عورت کی حیثیت سے عزت اور حقوق ملنے چاہئیں، اس کے لئے رشتوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے، کسی کو حق نہیں کہ وہ بتائے کہ آپ یہ لباس پہنیں‘ سڑک پر نہ جائیں‘ اگر مرد عورت کی عزت نہیں کر سکتا تو ایسے مردوں کو گھروں میں بند کرنا چاہیے، کسی عورت کو گھر میں رہنے کے لئے ہدایات دینا درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو جنسی جرائم ہو رہے ہیں وہ اس صورت میں کم ہوں گے اگر پولیس میں خواتین کی تعداد بڑھائی جائے اور مردوں کی ذہنیت کو تبدیل کیا جائے، حقوق اور عزت ہم مانگیں گے نہیں یہ ہمارا حق ہے۔

(جاری ہے)

وحشی ذہنیت ناقابل قبول ہے۔ قانون موجود ہے۔ اس پر عملدرآمد کرنا چاہیے۔ اگر افسر یہ بات کہے کہ اسے نہیں نکلنا چاہیے وہ ناقابل قبول ہے۔ ماڈل ٹائون میں دو خواتین کو قتل کیا گیا‘ عابد باکسر کے قصے ہم سن رہے ہیں۔

پولیس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ رائو انوار کو کوئی بھول گیا ہے کہ اس کی کیا ذہنیت تھی۔ انہوں نے کہا کہ سرعام پھانسی سے ایسے واقعات کم نہیں ہوتے، 4 ممالک میں سرعام پھانسی ہے، ناروے‘ سوئٹزرلینڈ سمیت 12 ممالک میں نامرد بنانے کا قانون ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر ماڈل ٹائون کا ذکر بھی کرتے ‘ ہمیں معاشرے اور سوچ کو بدلنا ہوگا، زینب ایکٹ آگیا ہے اور بھی قوانین آرہے ہیں۔