تپ دق کی روک تھام کی ویکسین کووڈ 19 کا شکار ہونے سے بچانے کے بیماری میں مبتلا ہونے پر شدت میں کمی لاسکتی ، ماہرین

ویکسین کے استعمال کرنے والے ممالک میں کووڈ 19 کے مصدقہ کیسز کی تعداد بھی کم رہنے میں ممکنہ مدد ملی ہے، حکام کا دعویٰ

بدھ 25 نومبر 2020 21:59

تپ دق کی روک تھام کی ویکسین کووڈ 19 کا شکار ہونے سے بچانے کے بیماری میں ..
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 نومبر2020ء) تپ دق کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین کووڈ 19 کا شکار ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ اس بیماری میں مبتلا ہونے پر اس کی شدت میں کمی لاسکتی ہے۔بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین کو ٹی بی سے بچائو کے لیے سو سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کیا جارہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد جیسے مثانے کے کینسر کی ابتدا میں عام امیون تھراپی کے طور پر بھی اسے آزمایا جارہا ہے۔

امریکا کے سیڈرز سینائی میڈیکل سینٹر کے ماہرین نے اس ویکسین کو 6 ہزار سے زائد طبی ورکرز پر آزمایا۔طبی جریدے دی جرنل آف کلینیکل انویسٹی گیشن میں شائع تحقیق میں شامل ان رضاکاروں سے ان کے طبی اور ویکسینیشن تاریخ کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔

(جاری ہے)

نتائج سے معلوم ہوا کہ 30 فیصد ایسے افراد جو ماضی میں کسی وقت بی سی بی ویکسین کو استعمال کرچکے تھے، میں کورونا وائرس کی اینٹی باڈیز مثبت آنے کا امکان نمایاں حد تک کم ہوا۔

آسان الفاظ میں ان افراد کا کووڈ 19 کا شکار ہونا یا اس سے متعلق علامات کا امکان کم ہوتا ہے۔محققین کے مطابق ایسا نظر آتا ہے کہ بی سی جی ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں یا تو بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے یا ان کا مدافعتی ردعمل اس وائرس کے خلاف زیادہ موثر انداز سے کام کرتا ہے، جس سے بیماری کی شدت بڑھتی نہیں۔تحقیق کے نتائج میں واضح کیا گیا کہ بی سی جی ویکسین کسی کووڈ 19 ویکسین سے زیادہ موثر نہیں ہوسکتی، مگر یہ ویکسین سے پہلے سے منظور شدہ اور آسانی سے دستیاب ہے، سے ایک منظور شدہ علاج کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

محققین کے خیال میں یہ ویکسین لوگوں کو کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکے گی اور اس عرصے میں زیادہ موثر اور محفوظ کووڈ ویکسین بڑے پیمانے پر دستیاب ہوسکے گی۔انہوں نے کہا کہ نتائج کے بعد ہمارا ماننا ہے کہ ایک بڑے کلینیکل ٹرائلز پر کام کرکے فوری طور پر اس بات کی تصدیق کی جانی چاہیے کہ بی سی جی ویکسین سے لوگوں کو کورونا وائرس سے تحفظ مل سکتا ہے یا نہیں۔

اس وقت دنیا کے متعدد ممالک میں پہلے ہی اس ویکسین کے حوالے سے کلینیکل ٹرائلز پر کام ہورہا ہے۔امریکا میں ہی سیڈرز سینائی کے علاوہ بیلور کالج آف میڈیسین اور ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کی جانب سے بھی الگ الگ اس ویکسین پر تحقیق کی جارہی ہے۔سیڈر سینائی کے محققین کا کہنا تھا کہ یہ زبردست ہوگا کہ ایک پرانی ویکسین دنیا کی ایک نئی وبا کو شکست دے سکے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ بی سی جی گروپ میں بیماری کی صورت میں شدت میں کمی کا تسلسل دیکھا گیا حالانکہ ان میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو فشار خون، ذیابیطس، دل کی شریانوں کے امراض اور پھیپھڑوں کے امراض کے شکار تھے، جن کو کووڈ کی سنگین شدت بڑھانے والے عناصر تصور کیا جاتا ہے۔مارچ کے آخر میں ایک تحقیق دعویٰ کیا گیا تھا کہ جن لوگوں کو یہ ویکسین دی گئی ہے انہیں کووڈ 19 کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے کیسز اور اموات کی شرح ان ممالک میں زیادہ ہے جہاں یہ ویکسین اب استعمال نہیں ہوتی، جیسے امریکا، اٹلی، اسپین اور فرانس۔پاکستان، بھارت، چین اور کئی ممالک میں یہ ویکسین اب بھی عام استعمال ہوتی ہے۔محققین کا کہنا تھا کہ اس ویکسین کے استعمال کرنے والے ممالک میں کووڈ 19 کے مصدقہ کیسز کی تعداد بھی کم رہنے میں ممکنہ مدد ملی ہے۔اس ویکسین میں ٹی بی کی ایک قسم کا زندہ اور کمزور جراثیم ہوتا ہے، جو جسم کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے۔