’میں کیوں زندہ رہا‘

DW ڈی ڈبلیو پیر 30 نومبر 2020 19:40

’میں کیوں زندہ رہا‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 نومبر 2020ء) جرمن شہری گیرہارڈ مالشیریک کو ایڈز کے مرض کے ایچ آئی وی وائرس کے زندہ رہتے ہوئے تیس برس سے زائد گزر گئے ہیں۔ اس وائرس میں مبتلا ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے، '' پہلے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ میں ایچ آئی وی کی گرفت میں آ گیا ہوں، پھر میں ہسپتال گیا اور ڈاکٹر سے درخواست کی کہ اگر میں اس میں مبتلا ہو چکا ہوں تو مجھے اس حقیقت کے بارے میں نہ بتایا جائے، مگر انہوں نے میری بات تسلیم نہیں کی اور یہ بری خبر مجھے سنا دی‘‘۔

گیرہارڈ اس خبر سے بہت پریشان اور پژمردہ ہوئے لیکن زندگی بڑھتی رہی اور اب وہ چونتیس برس بعد مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں۔

تشخیص اور پریشانی

گیرہارڈ کے ایڈز کے مرض میں مبتلا ہونے کی تشخیص سن 1986 میں ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

وہ چوتھے بڑی جرمن شہر کولون کے ان اولین افراد میں سے تھے جن میں اعصابی نظام کو شدید متاثر کرنے والے وائرس (HIV) کے کلینیکل ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا تھا۔

چونتیس برس بعد بھی وہ ابھی اس وائرس کے ساتھ زندہ ہیں اور اس دوران بے شمار افراد اس مہلک وائرس کی لپیٹ میں آنے کے بعد زندگی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ گیر ہارڈ کے مطابق سن 1980 کی دہائی میں اس وائرس کی تشخیص موت کی سزا کے مترادف تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشخیص کے بعد انہیں شدید ڈپریشن لاحق ہو گیا اور ان کا وزن بہت زیادہ کم ہو گیا کیونکہ وہ گہری پریشانی میں سارا وقت بستر پر دراز رہتے تھے۔

گیرہارڈ کی موجودہ زندگی

جرمن شہری گیرہارڈ مالشیریک اب ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوسرے جرمنوں کی طرح وہ بھی اپنے شہر کے نواحی دیہی علاقے میں منتقل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس تبدیلی کے بارے میں واضح کیا کہ بڑھاپے میں دل چاہتا ہے کہ شہر سے دور دیہی علاقے میں زندگی بسر کی جائے۔ وہ کولون شہر کے قریبی علاقے میں اپنے پارٹنر کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب وہ اپنے پالتو کتے کے ساتھ طویل واک کا لطف اٹھاتے ہیں اور رضاکارانہ کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ اڑسٹھ سالہ گیرہارڈ پرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ایچ آئی وی وائرس

اس وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد دوسرے امراض کا جلد شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کا مدافعتی و اعصابی نظام کسی حد تک کمزور ہو گیا ہوتا ہے۔

یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ اس وائرس کا شکار ہونے والے کئی مریض بغیر کسی علاج کے موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ معالجین کے مطابق بغیر کسی علاج کے ایسے مریض محض تین برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس وائرس کے پہلے مریض کی پہلی مرتبہ تشخیص امریکا میں سن 1981 میں ہوئی تھی۔ اس وائرس کا ہدف کوئی بھی مرد یا عورت اور عمر کے کسی بھی حصے میں بن سکتا ہے۔ وائرس میں مبتلا ہونے والے فرد کے بدن کے سیال مادے یا جنسی تعلق کسی دوسرے میں اسے منتقل کر سکتے ہیں۔

ابتدائی تشخیص کے بعد یہ وائرس دنیا بھر میں بہت تیزی سے پھیلا اور انسانی تاریخ کی ایک موذی وبا بن کر رہ گیا۔

جرمنی میں ایچ آئی وی کے مریض

جرمنی میں ایچ آئی وی یا ایڈز مرض کی شرح افزائش خاصی کم رہی ہے۔ اس وقت ایسے مریضوں کی تعداد نوے ہزار سے تھوڑی زیادہ ہے۔ رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2019 میں اس کے نئے مریضوں کی تعداد صرف چھبیس سو تھی اور ایک سال قبل سے یہ معمولی سی زیادہ ہے۔

سن 1980 میں امریکی اور برطانوی حکومتوں اور معاشرتی حلقوں کا ہم جنس پسند افراد کے لیے ریسپونس کسی حد تک سست رہا اور ایسا ہی رویہ جرمنی میں بھی دیکھا گیا۔

سن 2020 کے ایڈز کے بین الاقوامی دن جرمن محکمہٴ صحت کے حکام اور ایڈز مرض کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے والے سرگرم کارکنان اس مرض کو ایک دھبے کے طور پر لینے کے خلاف مہم جارہ رکھے ہوئے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق اب بھی پانچ میں سے ایک جرمن اس مرض اور مریض کے حوالے سے تحفظات رکھتا ہے۔

ایڈز کی آگہی کا عالمی دن

اقوام متحدہ کے فیصلے کے تحت ہر سال یکم دسمبر ورلڈ ایڈز کے طور پر منایا جاتا ہے تا کہ عام لوگوں کو اس مرض کے بارے میں جہاں آگہی دی جائے وہاں انہیں یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ ایڈز کے مریضوں سے دوری اختیار کرنا نامناسب رویہ ہے۔ ایسا کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔ رواں برس کے عالمی دن کو اس عزم کے ساتھ منایا جا رہا ہے کہ اس مرض کا ہر ممکن طریقے سے خاتمہ کیا جائے گا۔ سن 1988 میں پہلی مرتبہ ایڈز کا بین الاقوامی دن منایا گیا تھا۔

ع ح ، ک م۔ رینا گولڈنبرگ