خوراک کی عالمی فراہمی پر اجارہ داری: قابض کون؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 11 اپریل 2021 11:00

خوراک کی عالمی فراہمی پر اجارہ داری: قابض کون؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2021ء) بیج ایک دوسرے کو دینے پر کسانوں کے تعلقات افزائش پاتے تھے لیکن اب تعلقات کی بنیاد تبدیل ہو گئی ہے۔ ایک دوسرے کو بیج کی فراہمی اب قصہٴ پارینہ ہے کیونکہ سن 1990 کی دہائی میں ایک ایسا قانون عالمی سطح پر منظور کر کے نافذ کیا گیا، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں پچاس فیصد سے زائد فصلوں کے بیجوں پر چار بین الاقوامی کمپنیوں کا کنٹرول تسلیم کر لیا گیا۔

اقوام متحدہ نے ارب پتیوں سے مانگی مدد، فاقہ کشی سے لوگوں کو بچائیں

ان چار کمپنیوں میں جرمن کیمیکل ریسرچ ادارہ بائر، امریکی کورٹیوا، چین کی کیمیائی ریسرچ کی حامل کیم چائنا اور بیج پر جدید تحقیق کرنے والی فرانسیسی لیماگرین شامل ہیں۔ اس وقت انہی چاروں کمپنیوں کی عالمی خوراک کی سپلائی پر ایک طرح سے اجارہ داری قائم ہے۔

(جاری ہے)

خوراک پر کنٹرول

امریکا کی مشہور وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی سے وابستہ دیہی معاشرت کے ماہر پروفیسر جیک کلوپنبرگ کا کہنا ہے کہ بیج کی آزادانہ فراہمی پر خوراک کی سپلائی کو کنٹرول کرنا ممکن ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہی بیجوں سے پیدا ہونے والی فصلیں انسانوں اور زمین کے جانوروں کے لیے خوراک کا ذریعہ ہیں۔ کلوپنبرگ کے مطابق یہ درست ہے کہ نئے پودوں کو دریافت کرنے کا عمل ہی مستقبل میں زمین کے جانداروں کے لیے خوراک کا مؤثر عمل ہے۔

کم گوشت کھانا ماحول دوستی ہے، لیکن یہ بات اتنی درست بھی نہیں

دوسری جانب اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ خوراک پیدا کرنے والی پچھتر فیصد فصلوں کی کئی اقسام سن 1990 سے سن 2000 کے دوران کسی حد تک ناپید ہو گئیں اور اس تناظر میں بیجوں کی مؤثر اقسام پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس باعث کئی بیجوں کی نئی اقسام کو پہلے سے موجود قسموں کا مستقل متبادل قرار دیا گیا۔

یہی وہ دور تھا جب چار بڑی کمپنیوں کو عالمی سطح پر بیجوں پر اجارہ داری قائم کرنے کا موقع ملا۔

پودوں اور بیجوں کی نگرانی

جینیاتی طور تبدیل شدہ بیج تیار کرنے والی کمپنیوں، ان میں بائر اور کورٹیوا نمایاں ہیں، نے کسانوں کو پابند کیا کہ وہ بیجوں کی فروخت کس طرح محدود رکھیں گے۔ اس میں کسانوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اگلی فصل کے لیے بیج محفوظ نہیں کریں گے، یعنی حاصل شدہ فصل سے اگلی بوائی نہیں کی جائے گی۔

اس سارے عمل کے لیے قانون سازی کی گئی اور اس کا نام 'پلانٹ ورائٹی پروٹیکشن‘ رکھا گیا۔

عالمی ادارہ تجارت (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) نے تمام رکن ریاستوں کو پابند کیا کہ وہ اس قانون کی پاسداری کریں۔ پودوں کے تحفظ کے قانون پر عمل درآمد کی نگرانی کا ایک بین الاقوامی ادارہ UPOV بھی قائم کر دیا گیا اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی رکن ریاستوں کو اس ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کی پابندی قبول کرنا پڑی۔

جرمن ادارے کی منطق

اس مناسبت سے زرعی تحقیق کے جرمن ادارے بائر کا کہنا تھا کہ یہ پابندی کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے تا کہ وہ اپنی عارضی اجارہ داری کے تحت بیجوں کی نئی اقسام کاشت کر کے بغیر کسی مسابقت سے زیادہ مالی فائدہ حاصل کر سکیں۔ سماجی مبصرین بیجوں پر کنٹرول کی اس پالیسی کو انسانی فطرت کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے صدیوں کی روایت کو تہس نہس کر دینے کا عمل سمجھتے ہیں۔

نوآبادیاتی طرز کی زراعت

ناقدین کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر جدید بیجوں کی کنٹرولڈ انداز میں فروخت ایک طرح سے نو آبادیاتی زراعت کو متعارف کرانا ہے۔ جنوبی افریقہ کے سینٹر برائے بائیو ڈائیورسٹی کی ڈائریکٹر مریم مائیٹ کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل کو نو آبادیاتی نظام کا تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے کسانوں کی روزمرہ زندگی کو شدید انداز میں متاثر کیا ہے اور ماحول کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بیس ممالک میں شدید بھوک کے بحران کا خطرہ، اقوا م متحدہ

بیج کی اقسام کے استعمال نے زراعت کے پرانے نظام کو کسی حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ بڑی چاروں کمپنیاں بیجوں کے ساتھ ساتھ کیمیکل کھادیں اور کیڑے مار ادویات بھی تیار کرتی ہیں، جن کا استعمال کسانوں کی ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔ ان کیمیکلز اور بیجوں کے استعمال نے کسانوں کو ان کمپنیوں کا پوری طرح محتاج کر دیا ہے۔

کارپوریٹ زرعی بزنس

جنوبی افریقی سینٹر برائے بائیو ڈائیورسٹی کی خاتون ڈائریکٹر مریم مائیٹ نے اقوام عالم اور عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ بیجوں سے متعلق کی گئی قانون سازی سے کسانوں کو استثنیٰ دیا جائے تا کہ وہ قدیمی زراعت کو اپنے طور پر محفوظ رکھ سکیں۔ اس مناسبت سے کئی ممالک میں خوراک میں بااختیاری کی تحریکوں نے زور پکڑنا شروع کر دیا ہے۔ تھرڈ ورلڈ نیٹ ورک نامی جنوبی ایشیائی تحریک بھی اس پر فوکس کیے ہوئے ہے کہ کسانوں اور زرعی برادریوں کو اجازت دی جائے کہ وہ کارپوریٹ زرعی بزنس کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے طور پر بھی بیج محفوظ کرنے کے نظام وضع کر سکیں۔

چارلی شیلڈ (ع ح / م م)