مہینوں پہلے برطانیہ کے قریب ڈوبنے والے ایرانی بچے کی لاش ناروے کے ساحل پر پہنچ گئی

پیر 7 جون 2021 23:30

اوسلو(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 جون2021ء) ناروے میں پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ساحل پر جو لاش ملی ہے وہ پندرہ مہینے کے اس بچے کی ہے جو گزشتہ برس فرانس اور برطانیہ کے درمیان سمندر (انگلش چینل) میں ڈوب گیا تھا۔آرتن نامی یہ بچہ گزشتہ برس اکتوبر میں اپنے خاندان کے چار افراد سمیت اس وقت ہلاک ہو گیا تھا جب ان کی کشتی سمندر میں ڈوب گئی تھی۔

یہ ایرانی کرد خاندان فرانس سے برطانیہ آنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس خاندان کے دیگر رشتیداروں نے، جو آرتن کے بارے میں تفصیلات جاننے کے منتظر تھے، اپنے دکھ اور اس واقعے سے متعلق کنفیوڑن کے بارے میں بات کی ہے۔اب اس بچے کی باقیات کو دفنانے کے لیے ایران بھیجا جا رہا ہے۔ پیر کو اپنے بیان میں ناروے کی پولیس نے کہا کہ آرتن کی لاش ملک کے جنوب مغربی ساحل سے ملی ہے۔

(جاری ہے)

لاش کے ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد خاندان والوں کو مطلع کر دیا گیا کہ وہ آرتن کی لاش ہے۔ پولیس تحقیقات کی سربراہ کامیلا تجیل واج کا کہنا تھا 'ناروے میں ہمارے پاس کسی لاپتہ بچے کی کوئی رپورٹ نہیں تھی اور نہ ہی کسی خاندان نے اپنے کسی بچے کے لاپتہ ہو جانے کے سلسلے میں کوئی رابطہ کیا تھا۔' پولیس کے بیان کے مطابق اوسلو یونیورسٹی میں فورینزک سائنسز کے ڈپارٹمنٹ میں ماہرین نے ڈی این اے ٹیسٹ کیا۔

آرتن کی ایک خالہ جن کا نام نہایت ہے وہ پہلی رشتے دار ہیں جن سے ناروے کی پولیس نے بات کی۔ 'میں خوشی اور غم کے ملے جلے احساس سے گزر رہی ہوں۔ خوشی اس بات کی کہ آرتن کی باقیات بلآخر مل گئیں اور غم اس لیے کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔'کشتی کے ڈوب جانے کے اس واقعے کے بعد بی بی سی نے وہ پیغامات دیکھے تھے جن کے بارے میں خیال ہے کہ انھیں فرانس کے کیمپ سے محمد پنائی نے بھیجا تھا۔

ایک پیغام میں انھوں نے کشتی کے ذریعے انگلش چینل کو عبور کرنے سے متعلق خطرات کا ذکر کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ح*ایک اور پیغام میں انھوں نے لکھا تھا کہ وہ لاری کے ذریعے جانا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے زیادہ رقم کی ضرورت ہے جو ان کے پاس نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک پیغام میں محمد پنائی نے لکھا تھا 'میرا دل غموں سے بھرا ہوا ہے لیکن اب جبکہ میں ایران چھوڑ چکی ہوں میں اپنا ماضی بھول جانا چاہتی ہوں۔

'جس کشتی میں یہ خاندان سفر کر رہا تھا وہ گزشتہ برس 27 اکتوبر کو ڈوب گئی تھی جس کے نتیجے میں 35 سالہ رسول، 35 سالہ شیوا محمد پنائی، نو سالہ انیتا، چھ سالہ آرمن اور 15 مہینے کا آرتن ہلاک ہو گئے تھے۔ کشتی کے ڈوب جانے کے نتیجے میں آرتن سمیت اس کے خاندان کے تمام افراد ہلاک ہو گئے تھیاس خاندان کا تعلق مغربی ایران کے شہر سردشت سے تھا جو عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے۔

اس کشتی میں سوار دیگر 15 تارکینِ وطن کو بچا لیا گیا تھا اور ڈنکرِک میں فرانسیسی حکام اس حادثے کے بارے میں تفتیش کر رہے ہیں۔آرتن اور ان کے خاندان کے افراد نے فرانس کے شہر ڈنکرِک میں قائم تارکینِ وطن کے کیمپ میں کچھ روز گزارے تھے جہاں سے وہ برطانیہ آنا چاہتے تھے۔اسی کیمپ میں رہنے والے ایک تارکِ وطن بلال نے بتایا کہ آرتن کے خاندان نے سمندر کا سفر کرنے سے پہلے ان کے ٹینٹ کے قریب چار پانچ روز گزارے تھے۔

بلال نے بتایا کہ وہاں آرتن کو سب پسند کرتے تھے۔ انھوں نے آرتن کے ساتھ اپنی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا 'وہ ایک ہنس مکھ بچہ تھا۔ لوگ غم زدہ ہیں لیکن ہم رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔'ہر سال ہزاروں ایرانی کرد یورپ جانے کے لیے اپنی اور اپنے خاندانوں کی زندگیوں کو انسانی سمگلروں کے ہاتھوں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔