بھارت: ہندوؤں کو 'مسلمان بنانے‘ کے الزام میں مبلغین گرفتار

DW ڈی ڈبلیو منگل 22 جون 2021 18:40

بھارت: ہندوؤں کو 'مسلمان بنانے‘ کے الزام میں مبلغین گرفتار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2021ء) اتر پردیش کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے معروف مبلغ ڈاکٹر محمد عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر عالم قاسمی پر دولت، ملازمت اور شادی وغیرہ کا لالچ دے کر سینکڑوں ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے ان دونوں کے خلاف سیاہ قانون گنیگسٹر ایکٹ اور قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرانے اور ان کے اثاثوں کو ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے۔

نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر سے اسلامک دعوۃ مرکز کے نام سے تبلیغی سرگرمیاں انجام دینے والے عمر گوتم اور ان کے ساتھی جہانگیر قاسمی کو اتر پردیش اے ٹی ایس نے مذہبی فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے، مجرمانہ سازش کرنے، دھوکہ دہی اور انسداد تبدیلی مذہب جیسے سخت قوانین کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔

(جاری ہے)

ان پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے مالی اعانت حاصل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

اتر پردیش پولیس نے دعوی کیا کہ پولیس ملزمان اور اسلامی دعوۃ مرکز کی سرگرمیوں پر ایک عرصے سے نگاہ رکھے ہوئے تھی اور ان کے خلاف شواہد جمع ہو جانے کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔

’گرفتاریاں ایک بڑی سازش ہے‘

مسلم رہنما اور ڈاکٹر عمر گوتم کی سرگرمیوں کو قریب سے جاننے والے اس کارروائی کو مسلمانوں کو خوف زدہ اور ہراساں کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ مطالعات اسلامی کے پروفیسر ایمریٹس پدم شری اختر الواسع نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”عمر گوتم ایک عرصے سے اسلامی دعوۃ سینٹر چلا رہے ہیں۔ حکومت نے آخر اس وقت ہی انہیں کیوں گرفتار کیا؟ اس سے قبل کیا ان کی سرگرمیاں حکومت کی نگاہ میں نہیں تھیں؟" عمر گوتم سے ایک عرصے سے واقف پروفیسر اخترالواسع کا کہنا تھا کہ 'اتر پردیش میں الیکشن جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں، اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اگر حکومت کو عمر گوتم کی مبینہ سرگرمیوں کا پہلے سے علم تھا تو انہیں پہلے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟‘

تبدیلی مذہب کوئی جرم نہیں

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ میں کہا، ”زبردستی تبدیلی مذہب کرانے اور آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق جیسے الزامات بے بنیاد اور گھٹیا ہیں اور یہ عدالت میں ٹک نہیں پائیں گے۔

ان (عمر گوتم) پر لوگوں کو اسلام قبول کرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ تبدیلی مذہب کوئی جرم نہیں ہے۔ آئین میں اس کی اجازت ہے۔"

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین کا کہنا تھا، ”آئی ایس آئی کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اے ٹی ایس کا دعوی فرضی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں ایسے سینکڑوں افراد بری ہوئے ہیں جن پر اس طرح کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

ایجنسیاں اکثر بے گناہ لوگوں کو پھنساتی رہتی ہیں۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ گرفتاریاں در اصل اتر پردیش کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں ایک موضوع بنانے کے لیے کی گئی ہیں۔

عمر گوتم کے پڑوس میں رہنے والے اور دہلی اسمبلی کے رکن امانت اللہ خان کا کہنا تھا کہ 'اتر پردیش کے آئندہ اسمبلی انتخابات کے مدنظر بی جے پی کسی بھی طرح اپنی ڈوبتی کشتی کو پار لگانا چاہتی ہے اور اس کے لیے کوئی بھی غیر آئینی طریقہ اپنانے کے لیے تیار ہے۔

‘ عمر گوتم اور جہانگیر قاسمی کی گرفتاری شہریوں کے آئینی حقوق پر حملہ ہے کیونکہ بھارتی آئین کسی بھی مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت دیتا ہے۔

کون ہیں عمر گوتم؟

ڈاکٹر محمد عمر گوتم کا اصلی نام شیام پرتاپ سنگھ گوتم ہے۔ ان کی پیدائش سن 1962میں اتر پردیش میں فتح پور ضلع کے ایک راجپوت خاندان میں ہوئی۔ بیس برس کی عمر میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام محمد عمر گوتم رکھا۔

وہ گزشتہ تین دہائیوں سے جامعہ نگر کے بٹلا ہاؤس محلے میں قیام پذیر ہیں۔

جی بی پنت ایگری کلچر اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی سے زرعی سائنس میں گریجویٹ عمر گوتم نے اسلام قبول کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامک اسٹڈیز کی ڈگری حاصل کی اور کچھ عرصے کے لیے وہاں لکچرر بھی رہے۔ انہوں نے بعد میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقصد بنایا اور مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔

اپنے کام کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے انہوں نے اسلامک دعوۃ سینٹر کے نام سے ایک اور مرکز قائم کیا۔

انٹرنیٹ پر ایسی بہت سی ویڈیوز موجود ہیں جن میں ڈاکٹر عمر گوتم نے اپنے قبول اسلام کے واقعے کو تفصیل سے بیان کیا ہے اورکہا ہے کہ ان کے رابطے میں آنے والے ہزاروں افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔